ہولی کھیلوں گی کہہ بسم اللہ
نام نبی کی رتن چڑھی، بوند پڑی اللہ اللہ
بھارت مختلف مذاہب کا سنگم ہے اور اس میں ایک شاہانہ دور مغلوں کا بھی تھا، اس وقت مغل بھی ہولی کھیلا کرتے تھے، کیوں کہ اس وقت مذہب میں برادران وطن کا تہوار ایک دوسرے کے ساتھ نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ مناتے تھے۔اٹھارہویں صدی کے معروف پنجابی صوفی بلّے شاہ نے کہا کہ برصغیر صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے، اور اسی لیے بھارت کو گنگا جمنی تہذیب کا علم بردار کہا جاتا ہے، لیکن دونوں مذاہب کو اس کے رکھوالوں سے خطرہ ہے۔
یاد رہے کہ دور حاضر میں اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت کے صوفی اور بھکتوں نے دونوں برادری کے درمیان بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے۔
بھارت میں ہولی پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے،لیکن جب مسلمان بھارت آئے تو انہوں نے بھی انہیں لوگوں کی مانند اس تہوار کو منانا شروع کیا، خواہ وہ وقت شہنشاہ ہو یا فقیر۔
بسنت پنچمی سے اس تہوار کی شروعات ہوتی ہے، اور لوگ رنگوں اور گلال ایک دوسری کے چہروں پر لگا کر مناتے ہیں۔
مندروں میں سرسوں کے پھول چڑھائے جاتے ہیں اور ابیر گلال فضاؤں میں بکھیر دیا جاتا ہے۔
ہولی بھارت کا نہایت ہی خوشگوار اور رنگارنگی سے پرُ تہوار ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کے گلے شکوے بھول کر ایک دوسرے کو رنگ اور گلال لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔
تیرہوں صدی میں امیر خسرو نے اپنے شعروں کے ذریعے لکھا تھا کہ
کھیلوں گی ہولی خواجہ گھر آئے
دھن دھن بھاگ ہماری سجنی
خواجہ آئے ساجن میرے
مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے دور حکومت میں بھارت میں رواداری اور بھائی چارے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا، اور انہوں نے اپنے تمام تہواروں میں مساویانہ رخ اختیار کیا، جس روایت کو اورنگ زیب سمیت تمام حکمراں نے جاری رکھا۔