شاہد رضا خان جو حال ہی میں یونین پبلک سروسز کے لیے منتخب ہوئے ہیں، ان کی کہانی جدوجہد سے بھری ہوئی ہے۔
اٹھائیس برس کے شاہد رضا خان جن کا حال ہی میں یونین پبلک سروسز کے لیے انتخاب عمل میں آیا ہے، ان کی کہانی اس معنی میں بہت دلچسپ ہے کیونکہ وہ مدرسے کے فارغ التحصیل ہیں۔
شاہد خان نے اپنی تعلیم کی شروعات مدرسے کی تپائی پر قال اللہ وقال الرسول کی کتابیں پڑھتے ہوئے کی پھر وہ یونیورسٹی پہنچے۔
میری ماں مجھے ڈی ایم کہہ کر بلاتی ہے شاہد خان بتاتے ہیں کہ کبھی ان کی ماں ان کو مفتی صاحب کہہ کر پکارتی تھیں اب ان کی ماں انہیں ڈی ایم (ضلع مجسٹریٹ)کہہ کر پکارتی ہیں، حالانکہ شاہد خان کا انتخاب آئی اے ایس کے لیے نہیں ہوا، لیکن اس کے باوجود ان کی ماں انہیں ڈی ایم کہہ کر پکارتی ہیں۔
جبکہ دوسری جانب خود شاہد رضا خان کو یقین ہے کہ وہ ایک دن آئی اے ایس کا امتحان پاس کرلیں گے۔
شاہد خان کہتے ہیں کہ انہیں ان کی داڑھی اور ٹوپی کی وجہ سے کبھی بھی کسی غیر جانبداری کا سامنا نہیں کرنا پڑا وہ اپنی شناخت اور تشخص کے ساتھ پروقار زندگی گزار رہے ہیں۔
مدرسے کے تربیت یافتہ شاہد رضا خان اس بات کی پرزور وکالت کرتے ہیں کہ دینی مدرسوں میں ماڈرن تعلیم کو شامل کرنا چاہیے اس سے طلبا کو اپنی زندگی میں کریئر کے انتخاب میں آسانی ہوگی۔