اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں نوابی دور کی قدیم عمارتیں آج بھی پورے شان و شوکت سے کھڑی ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں سیاح ہر روز سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں۔
کورونا وبا کے چلتے بڑا امام باڑہ، چھوٹا امام باڑہ، بھول بھلیاں، پکچر گیلری وغیرہ سبھی کو بند کر دیا گیا ہے۔ یہ سبھی عمارتیں حسین آباد ٹرسٹ کے زیر نگراں ہیں اور ان کا ذمہ دار شہر کا ڈی ایم ہوتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران حسین آباد ٹرسٹ کامگار یونین کے نائب صدر آصف حسین نے بتایا کہ 12 اپریل سے امام باڑہ بند کر دیا گیا تھا لیکن ہم لوگوں کی ڈیوٹی لگتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں تقریبا 90 ملازمین ہیں جن میں 40 لوگوں کی ڈیوٹی ڈی ایم ابھیشیک پرکاش نے کووڈ 19 سینٹرز پر لگا دی ہے۔ یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے۔
کامگار یونین نے اس بابت ڈی ایم ابھیشیک پرکاش کو درخواست دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ہم لوگوں کی تنخواہ 6 ہزار روپے ماہانہ ہے، ایسے میں پریوار کی کفالت بہت مشکل سے ہو پاتی ہے۔ اب ہماری ڈیوٹی کووڈ سینٹرز پر لگا دی گئی ہے۔ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ کووڈ سینٹرز میں جا کر ڈیوٹی کریں۔
آصف حسین نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 'اگر ڈیوٹی کے دوران کسی بھی ملازم کی موت ہو جاتی ہے تو کون ذمہ داری لے گا؟ لہذا ہم ملازمین کے ساتھ ہر سپاہی کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے بلکہ سبھی کووڈ سینٹرز پر ذمہ داران کو بھیجا جائے۔ اگر ہماری ڈیوٹی لگائی بھی جائے تو سبھی ملازمین اور ان کے پریوار کی ذمہ داری لی جائے'
قابل ذکر ہے کہ حسین آباد ٹرسٹ کے ملازمین کا کہنا ہے کہ امام باڑہ میں سونا چاندی اور نقدی روپے بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہم ملازمین کی ڈیوٹی امام باڑہ سے ہٹا کر کووڈ سینٹرز میں لگائی جاتی ہے اور کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ یونین کے نائب صدر نے بتایا کہ جب ہم اعلی افسران سے بات کرتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی ذمہ داری نہیں لیں گے، ہمیں جو حکم ملا ہے وہی آپ کو کہا گیا ہے۔ اس سے سبھی ملازمین پریشان ہیں۔