پیش ہے کہ ان کی یوم پیدائش پر مختصر سا منظر نامہ:
وہ اردو زبان کے سینئر ادیب، نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ، اور دانشور ڈاکٹر جمیل جالبی انتقال کرگئے، انتقال کے وقت ان کی عمر 89 برس تھی۔
وہ 12 جون، 1929ء کو علی گڑھ، بھارت میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد جمیل خان تھا۔ ان کے آباء و اجداد یوسف زئی پٹھان ہیں اور اٹھارویں صدی میں سوات سے ہجرت کر کے بھارت میں آباد ہوئے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے والد محمد ابراہیم خاں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے بھارت، پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ 1943ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول سہارنپور سے میٹرک کیا۔
میرٹھ کالج سے 1945ء میں انٹر اور 1947ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
کالج کی تعلیم کے دوران جالبی صاحب کو ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر غیور احمد رزمی اور پروفیسر کرار حسین ایسے استاد ملے جنہوں نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔
اردو ادب کے صف اول کے صحافی سید جالب دہلوی اور جالبی صاحب کے دادا دونوں ہم زلف تھے۔ محمد جمیل خاں نے کالج کی تعلیم کے دوران ہی ادبی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔
ان دنوں ان کا آئیڈیل سید جالب تھے۔ اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ جالبی کا اضافہ کر لیا۔
تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ان کے بھائی عقیل پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
یہاں ان کے والد صاحب بھارت سے ان دونوں بھائیوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم بھیجتے رہے۔ بعد ازاں جمیل جالبی کو بہادر یار جنگ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔
جمیل صاحب نے ملازمت کے دوران ہی ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کر لیے۔ اس کے بعد 1972ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی نگرانی میں قدیم اُردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978ء میں مثنوی کدم راؤ پدم راؤ پر ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
بعد ازاں سی ایس ایس کے امتحان میں شریک ہوئے اور کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والدین کو بھی پاکستان بلا لیا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد باقاعدہ طور پر ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔
قبل ازیں انہوں نے ماہنامہ ساقی میں معاون مدیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنا ایک سہ ماہی رسالہ نیا دور بھی جاری کیا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی 1983ء میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1987ء میں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) کے چیئرمین تعینات ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ 1990ء سے 1997ء تک اردو لغت بورڈ کراچی کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔
جالبی کی سب سے پہلی تخلیق سکندر اور ڈاکو تھی جو انہوں نے 12 برس کی عمر میں تحریر کی اور یہ کہانی بطور ڈراما اسکول میں اسٹیج کیا گیا۔ جالبی کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شائع ہوتی رہیں۔
ان کی شائع ہونے والی سب سے پہلی کتاب جانورستان تھی جو جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔ ان کی ایک اہم کتاب پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ ہے جس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور مشہور تصنیف تاریخ ادب اردو ہے جس کی چار جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔
ان کی دیگر تصانیف و تالیفات میں تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامعہ عثمانیہ اور پاکستانی کلچر کی تشکیل بھی ان کی اہم تصنیفات ہیں۔
جمیل جالبی نے متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں جانورستان، ایلیٹ کے مضامین، ارسطو سے ایلیٹ تک شامل ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی قابل ذکر کتابیں حیرت ناک کہانیاں اور خوجی ہیں۔
تصنیف و تالیف و ترجمہ: قومی انگریزی اردو لغت، جانورستان ( جارج آرول کے ناول کا ترجمہ)، پاکستانی کلچر:قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو، تنقید و تجربہ، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، محمد تقی میر، معاصر ادب، قومی زبان یک جہتی نفاذ اور مسائل، قلندر بخش جرأت لکھنوی تہذیب کا نمائندہ شاعر، مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی، دیوان نصرتی، قدیم اردو کی لغت، فرہنگ اصلاحات جامع عثمانیہ، میرا جی ایک مطالعہ، ن م راشد - ایک مُطالعہ، ایلیٹ کے مضامین (ترجمہ)، ارسطو سے ایلیٹ تک، حیرت ناک کہانیاں، خوجی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں 1964ء، 1973ء، 1974ء اور 1975ء میں داؤد ادبی انعام، 1987ء میں یونیورسٹی گولڈ میڈل، 1989ء میں محمد طفیل ادبی ایوارڈ اور حکومت پاکستان کی طرف سے 1990ء میں ستارۂ امتیاز اور 1994ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا ۔
اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 2015ء میں آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے ادبی انعام کمال فن ادب انعام سے نوازا گیا۔
جمیل جالبی کی رحلت نے جو ادبی خلا پیدا کیا ہے اس کا پُر ہونا بہت مشکل ہے۔