بہار کے ضلع گیا میں اقلیتی ادارے بنیادی مقاصد کی تکمیل سے کوسوں دور ہیں۔ گیا میں ایک اقلیتی لسانی کالج، دو پلس ٹو ہائی اسکول اور ایک گرلس اسکول ہے جسے قائم کرنے کا مقصد اقلیتی برادری کی تعلیمی، لسانی شعبے میں ترقی سے ہمکنار کرنا اور خود کفیل بنانا تھا لیکن یہ ادارے ان مقاصد کے حصول میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔
موجودہ وقت میں یہ اقلیتی ادارے نجی اداروں کی طرز پر خود کو قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جس کے سبب تعلیم تو معیاری ہے لیکن مہنگی ضرور ہو گئی ہے۔ بنیادی مقصد سے پیچھے رہنے اور بھارت کے دستور میں ملے اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنی مادری زبان اور ثقافت کی حفاظت نہیں ہو پارہی ہے۔
اکابرین نے دستور میں ملے اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے اقلیتی برادری کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ اپنی زبان و تہذیب کی پاسداری اور قوم کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے یہ ادارے کھولے تھے لیکن آج وہ مقصد نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔
آئین کی متعدد دفعات کے تحت ملی خصوصی مراعات کی بنیاد پر اقلیتی اداروں کی خود کی کمیٹی ہوتی ہے جو نہ صرف نظم و نسق چلاتی ہے بلکہ انہیں بحالی اور مالی اخراجات کے اختیارات حاصل ہیں لیکن اس کا غلط استعمال کر کے کنبہ پروری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ان اداروں میں بدعنوانی اور دوسرے معاملات بھی پیش آتے ہیں۔
اتنا ہی نہیں بلکہ اقلیتی اداروں میں عہدے پر فائز ہونے کے لیے آپسی چپقلش و خلفشار کا بھی معاملہ پیش آتا ہے جس کی وجہ سے اداروں کی ترقی کی رفتار رک جاتی ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک ادارے کا نہیں ہے بلکہ تقریبا ایسے بیشتر اداروں کا یہی حال ہے، جو اقلیتی ہیں۔ کچھ ایسے ادارے بھی ہیں جن کی بنیاد ہی زبان ہے۔ بالخصوص اردو کے فروغ اور تحفظ کے لیے لسانی اقلیتی اسٹیٹس لیا گیا لیکن آج وہاں اردو دم توڑ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اس سلسلے میں بہار کے بڑے اقلیتی لسانی کالج مرزا غالب کالج گیا کے پروفیسر انچارج پروفیسر سرفراز خان کہتے ہیں کہ ہمارے ادارے قوم کی فلاح و بہبود اور خاص طور پر اپنی ثقافت اپنی زبان اور قوم کے بچوں کے مستقبل سنوارنے کے لیے قائم ہوئے تھے لیکن بدلتے حالات اور ماحول کے ساتھ اقلیتی اداروں نے بھی خود کو بدل لیا ہے۔ کلچر تو دور اپنی مادری زبان تک کا خیال نہیں ہے۔ خود کو مغربی کلچر میں ڈھالنے کے لیے نہ تو ہم نے اداروں میں ڈریس کوڈ کو برقرار رکھا اور نہ ہی اپنی تہذیب کے فروغ کے لیے کوئی تقریب کرتے ہیں جبکہ اپنے کلچر و زبان کے فروغ پر کام کرنے کے لیے قانون بھی اجازت دیتا ہے باوجود کہ ہم خاموش ہیں۔
ادارے اگر اپنی زبان اور کلچر کے تحفظ پر کام نہیں کریں گے تو ہمارے معاشرے میں اس شعبے میں خلا پیدا ہوگا اور پھر بے راہ روی اور برے حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اردو اقلیتی ادارے میں لازمی قرار دینی چاہیے لیکن آج ہم اپنے گھروں کی طرح ہی ادارے سے بھی اردو کو غائب کر چکے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو اردو مٹ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی ادارے نجی اداروں کی طرح کام کرتے ہیں یعنی کہ پرائیویٹ لمیٹڈ ہو گئے ہیں۔ جن مقاصد کے تحت یہ ادارے قائم ہوئے تھے وہ آج اپنے مقاصد سے بھٹک گئے۔ قوم کو فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتی ادارے اپنے بنیادی مقاصد کی پاسداری کریں۔