اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

جنگ آزادی میں آدیواسیوں نے روایتی ہتھیاروں کے دم پر انگریزوں سے لوہا لیا - ای ٹی وی بھارت خبر

برصغیر میں برطانوی حکومت جو کہ موجودہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں پھیلی ہوئی تھی ظلم و جبر سے بھری ہوئی تھی۔ اگرچہ ملک کے بہت سے حصوں میں بغاوتیں اورانقلاب کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ لیکن انگریزان صداؤں کو دبانے میں کامیاب رہے- چاہے وہ سنہ 1857 کی ناکام بغاوت ہو یا دیگر جنگیں۔ مگر قبائیلیوں نے اپنے روایتی ہتھیاروں کی مدد سے انگریزوں کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔

جھارکھنڈ
جھارکھنڈ

By

Published : Aug 29, 2021, 12:47 PM IST

توپ، بندوق اور جدید ہتھیار سے لیس ہونے کے باوجود انگریز حکمران جھارکھنڈ کے قبائلیوں سے خوفزدہ رہتے تھے، کیونکہ یہ قبائلی گوریلا جنگ اور روایتی ہتیھار چلانے میں ماہر تھے۔

اس کے علاوہ جھارکھنڈ کا جغرافیائی ڈھانچہ بھی ملک کے دیگر علاقوں سے بہت مختلف ہے جسے انگریز اس وقت تک نہیں سمجھ سکے تھے۔ انگریز گوریلا جنگ میں مہارت رکھنے والے ان آدیواسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے تھے۔

قبائیلیوں کا دیسی اسلحہ

تاریخ دان کمل مہاور کا کہنا ہے کہ قبائلیوں کے پاس کئی قسم کے روایتی ہتھیار تھے ۔جن میں تیر، کمان، کلہاڑی، نیزہ، کھال اور لاٹھی شامل ہیں۔ کچھ قبائلی تیر اور کمان میں مہارت رکھتے تھے، جبکہ کچھ نیزہ بازی میں مہارت رکھتے تھے۔ تیر پر زہر لگا ہوتا اور اسے آگ میں پکایا جاتا تھا۔

اس وقت کے وہ قبائلی 300 میٹر سے بھی زائد فاصلے سے تیروں سے حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے زہریلی تیز سے اگر کوئی زخمی ہوتا تو موت یقینی تھی۔

دراصل قبائلیوں کی براہ راست لڑائی ساہوکاروں کے ساتھ تھی اور ساہوکار انگریزوں کے قریب تھے۔ اس کی وجہ سے قبائلیوں کو انگریزوں سے براہ راست لڑنا پڑا۔

جڑی بوٹیوں سے ہتھیاروں کو مہلک بناتے تھے قبائلی

اپنے ہتھیاروں کو مہلک بنانے کے لیے قبائلی تیر پر ایک خاص قسم کی لیپ لگاتے تھے۔ جس سے دشمن کی ہلاکت یقینی تھی۔ اس لیپ کو بنانے کا ایک پورا عمل تھا۔ قبائلی جنگل سے جڑی بوٹیاں لاتے تھے اور اس کا پیسٹ تیار کرتے تھے۔ تیر کا نوکدار حصہ گرم کیا جاتا اور اس کے بعد اس نوکدار حصہ پر لیپ لگاتے تھے۔ اس سے ہتھیار مزید مہلک ہوجاتا تھا۔ اس کام کے لیے الگ سے کاریگر ہوتے تھے۔

کچھ لیپ ایسے بھی تیار کیے جاتے جس سے دشمن کو موت کے وقت تکلیف پہنچے۔ کچھ تیروں میں مرچوں کو پیس کر لیپ لگایا جاتا تھا تاکہ دشمن بے چین ہوجائے۔

قبائلی بتاتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کئی بار جنگ میں زخمی ہو جاتے تھے، لیکن وہ جڑی بوٹیاں کھانے کے بعد جلد ہی ٹھیک ہو جاتے تھے۔ قبائلی اپنے زخموں پر نیم کے پتوں کو پیس کر لگاتے تھے جس سے ان کا زخم جلدی بھر جاتا تھا۔ مؤرخ کمل مہاور بتاتے ہیں کہ قبائلی سماج کے لیے لوگ صحت مند رہنے کے لیے جڑی بوٹیوں میں کندمول، گلوائے، آملہ، پتھرچٹہ سمیت دیگر جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتے تھے۔ قبائلیوں میں طاقت ، اعتماد کے علاوہ ہار نہ ماننے کا پختہ یقین تھا۔

قبائلیوں کے لیے تیر کمان صرف ہتھیار نہیں بلکہ ان ہتھیاروں کے ساتھ ان کا عقیدہ جڑا ہوا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اس سے انہیں خصوصی طاقت ملتی ہے۔

قبائلی منڈل مرمو کا کہنا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد جنگ سے پہلے ہتھیاروں کی پوجا کرتے تھے۔ انہیں بات پر یقین ہے کہ ہتھیاروں کی پوجا سے ان کی طاقت بڑھتی ہے۔ جنگلوں میں رہنے والے قبائلی اپنی حفاظت کے لیے شروع ہی سے جنگ کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ ملک کی آزادی کے لیے پہلی شہادت دینے والوں جبرا تام تقسم کی روایتی ہتھیار چلانے میں ماہر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ برطانیہ حکومت جھارکھنڈ قبائلیوں کی طاقت کے سامنے کانپتے تھے۔'

مزید پڑھیں :بھارت کے ایسے دوعظیم مجاہد آزادی، جنہیں ہم نے فراموش کردیا

18ویں صدی کے وسط میں انگریزوں کے مظالم میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا، لیکن برطانوی حکومت جھارکھنڈ کے قبائلیوں کی زد میں تھا۔ توپ اور بندوقوں سے لیس ہونے کے باوجود انگریز قبائلیوں کے ساتھ کانپتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قبائلی تیر اور کمان جیسے روایتی ہتھیاروں کے استعمال میں ماہر تھے۔ دوسری طرف جھارکھنڈ کا جغرافیائی ڈھانچہ بھی ملک کے دیگر حصوں سے بہت مختلف ہے جسے انگریز اس وقت تک نہیں سمجھ سکے تھے۔ انگریز گوریلا جنگ میں مہارت رکھنے والے آدیواسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details