اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

Vajpayee 4th Death Anniversary جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت کے علمبردار واجپائی

سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے بزرگ رہنما اٹل بہاری واجپائی کی چوتھی برسی منائی جارہی ہے۔ اس موقع پر بی جے پی کے رہنما انہیں خراج عقیدت پیش کرنے پہنچے۔ مرکزی وزراء اور بی جے پی کے کئی اعلیٰ لیڈر سابق وزیر اعظم 'سدایو اٹل' کی یادگار پر پہنچ رہے ہیں۔ Atal Bihari Vajpayee Death Anniversary

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو چوتھی پہلی برسی پر خراج عقیدت
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو چوتھی پہلی برسی پر خراج عقیدت

By

Published : Aug 16, 2022, 10:13 AM IST

Updated : Aug 16, 2022, 10:24 AM IST

نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے کابینہ کے ساتھیوں نے بی جے پی کے آنجہانی لیڈر اٹل بہاری واجپائی کو ان کی پہلی برسی پر خراج عقیدت پیش کیا۔ Ex PM Atal Bihari Vajpayee۔ واجپائی کا انتقال 16 اگست 2018 کو ہوا تھا۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھے۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔ سیاست کے پرمہنس، بھارت رتن، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی ملک کے مقبول عوامی لیڈروں میں شمار کیے جانے والے ایک بہتر قائد کے طور پر ہمیشہ امر رہیں گے۔ 2004 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد اقتدار کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے اٹل جی نے جو مثال قائم کی، وہ بہت کم ہے۔ Tribute to Former Prime Minister Atal Bihari Vajpayee on his 4th Death Anniversary

فعال سیاست کے دور میں اٹل جی کا کبھی کوئی ذاتی مخالف نہیں تھا۔ مخالف سیاسی نظریات کے لوگ بھی ہمیشہ خلوص دل سے ان کا احترام کرتے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جو کبھی ملک کی کئی پارٹیوں میں سیاسی اچھوت سمجھی جاتی تھی، اس پارٹی کو بنانے کا سہرا ان کے کھاتے میں درج ہے۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو چوتھی پہلی برسی پر خراج عقیدت

یہ بھی پڑھیں:

باصلاحیت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی

ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بہت پہلے ان کی صلاحیتوں کو جان چکے تھے۔ اٹل جی کی لبرل سوچ ہی ان کی روحانی طاقت تھی۔ وہ ہندوستان کی امید کی علامت بن گئے۔ بھارتیہ جن سنگھ کے بانی ارکان میں سے ایک اٹل جی سب کو ساتھ لے کر ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے حق میں تھے۔ مضبوط سیاسی مخالفین سے ان کی قربت، شائستگی، احترام نے اٹل جی کو سیاست کے سنت کے طور پر مشہور کیا۔

'میں ہار نہیں مانوں گا، فیصلہ نہیں کروں گا..!' اٹل جی نے کبھی بھی چیلنجوں سے ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی کا ساتھ دیا۔ سیاست کا وہ دور جو اٹل جی کی چمک دمک نے قائم کیا تھا، اس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔ اٹل جی کا رشتہ ملک سے تھا، انہوں نے زندگی بھر کوئی جھگڑا نہیں ہونے دیا۔ اٹل جی کے لیے کوئی بھی اجنبی نہیں ہے۔

بھارت نے 11 مئی اور 13 مئی 1998 کو ایک نئی تاریخ لکھی جب بھارت نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی رہنمائی میں پانچ ایٹمی تجربات کیے تھے۔ یہ مکمل طور پر خفیہ کام تھا، جس کے بارے میں بہت کم لوگ واقف تھے۔ حالانکہ اس وقت ڈاکٹر A.P.J. عبدالکلام، جو اس وقت واجپائی کے سائنسی مشیر تھے، نے ہاٹ لائن کے ذریعے ایک پیغام بھیجا اور کہا کہ 'بدھا اسمائیل اگین'۔ جس کے بعد وہاں موجود سبھی خوشی سے اچھل پڑے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے فوری طور پر سائنسدانوں کو فون کیا اور انہیں ان کی کامیابی پر مبارکباد دی۔

اس نیوکلیر ٹیسٹ نے مغربی ملک کو حیران کر دیا۔ ان ایٹمی تجربات کے بعد بھارت نے ایک نئی شناخت حاصل کی۔ حالانکہ اس وقت امریکہ نے ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ واجپائی نے دو دن بعد دوبارہ ایٹمی تجربہ کیا۔

اٹل بہاری واجپائی کی کشمیر کے لیے کوشش

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے بیچ تنازعہ کا موضوع رہا۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرامن کوشش کی تھیں۔ وہ جنگ سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ آنجہانی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے کشمیر کے سلسلے میں ایک اہم ترین نعرہ دیا تھا، وہ نعرہ آج بھی زبان زد عام ہے'جمہوریت،انسانیت اور کشمیریت '

اس تنازعہ کو حل کرنے کے متعدد سیاسی رہنماؤں نے کوششیں کی ہیں۔ ان رہنماؤں میں ایک نام آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کا بھی شامل ہے۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرامن کوشش کی تھیں۔ وہ جنگ سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ کشمیر کے معاملے میں واجپئی کو ہمیشہ بڑے دل والا رہنما کہا گیا۔ جس کا ثبوت انہوں نے بار بار اپنی حکمت عملی سے دیا بھی۔ ان فیصلوں میں سے ''لاہور ڈیکلریشن'' ایک تاریخی فیصلہ مانا گیا۔ جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں شدید کشیدگی کے باوجود بھی آنجہانی واجپئی نے اس معاہدے کے لیے پہل کی۔

اس فیصلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات میں بہتری کے بجائے کشیدگی پیدا ہوگئی کیوں کہ پاکستان کی جانب سے کرگل میں دراندازی کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم حالات ناسازگار ہونے کے باوجود بھی واجپئی نے معاملے کو طول دینے کے بجائے اس کا حل نکالنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات پر زور ڈالا۔

سنہ 2001 میں آگرہ میں اجلاس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اس وقت کمی آئی جب مشرف نے واجپئی سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کے زیر انتظامیہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں پر روک لگائیں گے۔ اس کے بعد کشمیر کی فضا بھی پُرامن ہونے لگی۔ حالات میں بہتری دیکھ کر مرکزی حکومت نے وہاں سے فوج کی تعداد کم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا تاہم، اس پر عمل نہیں ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیں:

جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت کے علمبردار، اٹل بہاری واجپئی

مسئلۂ کشمیر پر انہوں نے کہا تھا کہ 'انسانیت کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہو وہ کشمیر کے لیے کیا جائے گا۔'

بھارت پاکستان کے بیچ مسئلۂ کشمیر پر جب مذاکرات کیے جارہے تھے اس وقت کشمیر علیحدگی پسند رہنماؤں نے اعتراض کیا کہ کشمیر کی بات چیت میں کشمیریوں کو بھی حصہ دار بنایا جائے۔ واجپئی نے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا اور پہلی بار کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کو بھارت پاکستان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے لیے مدعو کیا گیا۔

واجپئی کی کشمیر پر حکمت عملی اور ان کے کرادر نے تاریخ رقم کرکے آنے والے وزیراعظموں کے لیے ایک کامیاب مثال قائم کی لیکن افسوس کا پہلو یہ رہا کہ ان کے نعرے کو زمینی سطح پر اتارنے کی کسی بھی رہنما نے سنجیدہ کوشش نہیں کی اور آج حالات یہ ہیں کہ کشمیر ایک بار پھر 90 کی دہائی میں جا پہنچا ہے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے فیصلے نے کشمیر کو ایک بار پھر دلدل میں دھکیل دیا ہے اور ریاست کے حالات ایک بار پھر مزید ابتر ہوگئے ہیں جیسا کے میڈیا رپورٹز میں سامنے آرہے ہیں اور سول سوسائٹی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے گزشتہ دنوں دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرکے اس کی تفصیلات پیش کی تھی۔ کمیٹی نے ویڈیو کے ذریعہ وہاں کی صورتحال کو بتایا کہ وہاں حالات ابتر ہوچکے ہیں۔

واجپئی کا خود کو جانشین بتانے والے وزیراعظم نریندر مودی نے واجپئی کی حکمت عملی کے برخلاف کام کیا۔ انہوں نے نہ تو کشمیریوں کو گلے لگایا اور نہ ہی ان کے زخموں پر مرہم پٹی کی بلکہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ہی ختم کردیا جس کے سبب وہاں کے حالات دھماکہ خیز ہوچکے ہیں۔

گوالیار کے اٹل بہاری واجپئی

گوالیار کی گلیوں میں نشونما پانے والے اٹل بہاری واجپئی اپنی صلاحیت کی بنیاد پر پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ ایک اوسط خاندان میں پیدا ہونے والے سابق وزیراعظم سیاست کی دنیا میں جب قدم رکھا تو وہاں پر بھی بلند مقام پر فائز ہوگئے۔

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی ابتدائی تعلیم بھی گوالیار میں ہی ہوئی تھی۔ جس کی یادیں اب بھی گوالیار کی گلیوں میں آباد ہیں، انہوں نے شہر کے گورکھی اسکول سے تعلیم حاصل کی جہاں ان کی یادوں کو کلاس روم اور کھیل کے میدان میں محفوظ رکھا گیا ہے اور اسکول کی دیواروں پر اٹل جی کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ جب اٹل جی 1935 سے 1937 تک اس اسکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے تب ان کے والد کرشنا بہاری واجپئی اس اسکول میں ٹیچر تھے۔ آج بھی اس رجسٹر کو اسکول میں حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہے جہاں اٹل جی کی موجودگی ایک بار ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس رجسٹر میں ان کی موجودگی 100 فیصد ہے۔

واضح رہے کہ اٹل بہاری واجپئی گزشتہ برس 16 اگست کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اس اسکول نے ان کی موجودگی کو ہمیشہ محسوس کیا ہے۔ یہاں کے اساتذہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ اسکول اٹل جی کی یادوں کی میراث ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Last Updated : Aug 16, 2022, 10:24 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details