نئی دہلی:وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے کابینہ کے ساتھیوں نے بی جے پی کے آنجہانی لیڈر اٹل بہاری واجپائی کو ان کی پہلی برسی پر خراج عقیدت پیش کیا۔ Ex PM Atal Bihari Vajpayee۔ واجپائی کا انتقال 16 اگست 2018 کو ہوا تھا۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھے۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔ سیاست کے پرمہنس، بھارت رتن، سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی ملک کے مقبول عوامی لیڈروں میں شمار کیے جانے والے ایک بہتر قائد کے طور پر ہمیشہ امر رہیں گے۔ 2004 کے عام انتخابات میں شکست کے بعد اقتدار کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے اٹل جی نے جو مثال قائم کی، وہ بہت کم ہے۔ Tribute to Former Prime Minister Atal Bihari Vajpayee on his 4th Death Anniversary
فعال سیاست کے دور میں اٹل جی کا کبھی کوئی ذاتی مخالف نہیں تھا۔ مخالف سیاسی نظریات کے لوگ بھی ہمیشہ خلوص دل سے ان کا احترام کرتے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جو کبھی ملک کی کئی پارٹیوں میں سیاسی اچھوت سمجھی جاتی تھی، اس پارٹی کو بنانے کا سہرا ان کے کھاتے میں درج ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
باصلاحیت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی
ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بہت پہلے ان کی صلاحیتوں کو جان چکے تھے۔ اٹل جی کی لبرل سوچ ہی ان کی روحانی طاقت تھی۔ وہ ہندوستان کی امید کی علامت بن گئے۔ بھارتیہ جن سنگھ کے بانی ارکان میں سے ایک اٹل جی سب کو ساتھ لے کر ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے حق میں تھے۔ مضبوط سیاسی مخالفین سے ان کی قربت، شائستگی، احترام نے اٹل جی کو سیاست کے سنت کے طور پر مشہور کیا۔
'میں ہار نہیں مانوں گا، فیصلہ نہیں کروں گا..!' اٹل جی نے کبھی بھی چیلنجوں سے ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی کا ساتھ دیا۔ سیاست کا وہ دور جو اٹل جی کی چمک دمک نے قائم کیا تھا، اس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔ اٹل جی کا رشتہ ملک سے تھا، انہوں نے زندگی بھر کوئی جھگڑا نہیں ہونے دیا۔ اٹل جی کے لیے کوئی بھی اجنبی نہیں ہے۔
بھارت نے 11 مئی اور 13 مئی 1998 کو ایک نئی تاریخ لکھی جب بھارت نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی رہنمائی میں پانچ ایٹمی تجربات کیے تھے۔ یہ مکمل طور پر خفیہ کام تھا، جس کے بارے میں بہت کم لوگ واقف تھے۔ حالانکہ اس وقت ڈاکٹر A.P.J. عبدالکلام، جو اس وقت واجپائی کے سائنسی مشیر تھے، نے ہاٹ لائن کے ذریعے ایک پیغام بھیجا اور کہا کہ 'بدھا اسمائیل اگین'۔ جس کے بعد وہاں موجود سبھی خوشی سے اچھل پڑے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے فوری طور پر سائنسدانوں کو فون کیا اور انہیں ان کی کامیابی پر مبارکباد دی۔
اس نیوکلیر ٹیسٹ نے مغربی ملک کو حیران کر دیا۔ ان ایٹمی تجربات کے بعد بھارت نے ایک نئی شناخت حاصل کی۔ حالانکہ اس وقت امریکہ نے ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ واجپائی نے دو دن بعد دوبارہ ایٹمی تجربہ کیا۔
اٹل بہاری واجپائی کی کشمیر کے لیے کوشش
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے بیچ تنازعہ کا موضوع رہا۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرامن کوشش کی تھیں۔ وہ جنگ سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ آنجہانی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے کشمیر کے سلسلے میں ایک اہم ترین نعرہ دیا تھا، وہ نعرہ آج بھی زبان زد عام ہے'جمہوریت،انسانیت اور کشمیریت '
اس تنازعہ کو حل کرنے کے متعدد سیاسی رہنماؤں نے کوششیں کی ہیں۔ ان رہنماؤں میں ایک نام آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کا بھی شامل ہے۔ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرامن کوشش کی تھیں۔ وہ جنگ سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔ کشمیر کے معاملے میں واجپئی کو ہمیشہ بڑے دل والا رہنما کہا گیا۔ جس کا ثبوت انہوں نے بار بار اپنی حکمت عملی سے دیا بھی۔ ان فیصلوں میں سے ''لاہور ڈیکلریشن'' ایک تاریخی فیصلہ مانا گیا۔ جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں شدید کشیدگی کے باوجود بھی آنجہانی واجپئی نے اس معاہدے کے لیے پہل کی۔
اس فیصلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات میں بہتری کے بجائے کشیدگی پیدا ہوگئی کیوں کہ پاکستان کی جانب سے کرگل میں دراندازی کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم حالات ناسازگار ہونے کے باوجود بھی واجپئی نے معاملے کو طول دینے کے بجائے اس کا حل نکالنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات پر زور ڈالا۔
سنہ 2001 میں آگرہ میں اجلاس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اس وقت کمی آئی جب مشرف نے واجپئی سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کے زیر انتظامیہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں پر روک لگائیں گے۔ اس کے بعد کشمیر کی فضا بھی پُرامن ہونے لگی۔ حالات میں بہتری دیکھ کر مرکزی حکومت نے وہاں سے فوج کی تعداد کم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا تاہم، اس پر عمل نہیں ہوسکا۔