بابری مسجد کا تنازع سب سے پہلے سنہ 1528 میں منظر عام پر آیا تھا جس کے بعد سے دہائیوں تک قانونی پیچیدگیوں اور زیر التوا ثبوتوں کی وجہ سے یہ لڑائی عدالت میں جاری رہی، اس دوران بابری مسجد نے کئی مراحل دیکھے، اسی مراحل کا ایک حصہ چھ دسمبر سنہ 1992 کا وہ دن ہے، جس دن تاریخی بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے نو نومبر 2019 کو بابری مسجد ۔ رام مندر اراضی تنازع کیس کا فیصلہ رام للا کے حق میں سنایا اورمتنازع اراضی پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیا۔
اس معاملے میں اترپردیش کے الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ نے ستمبر 2010 میں فیصلہ سنایا تھا اور متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، سنہ 2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی تھیں جس کے بعد سنہ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی سات ججوں کی آئینی بینچ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع اراضی کو ہندو فریق رام للا کے حوالے کرنے کا فیصلہ جبکہ مسلم فریق سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔