علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) میں سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے زیر اہتمام مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ منعقد کیا گیا۔ مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ سے متعلق اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے پیغام میں کہا کہ سینٹر کی تجدید کی گئی ہے تاکہ یونیورسٹی اور مدارس کے قدیم رشتہ کو مضبوطی حاصل ہو اور مدارس میں سائنسی علوم کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کی وزارت اقلیتی امور نے اس سینٹر کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک خطیر رقم کی منظوری دی ہے، جس سے مدرسہ اور سینٹر کے تعامل اور مدرسہ موڈرنائزیشن کا کام بآسانی کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے ہم وزارت کے مشکور و ممنون ہیں۔ سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے ڈائریکٹر نسیم احمد خاں نے سینٹر کا تعارف کراتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں اور مقاصد پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانان ہند میں سائنسی علوم کے فروغ اور پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے ہی اے ایم یو نے اپنے ایکٹ کی دفعات کے تحت 1985 میں 'سینٹر فار پروموشن آف سائنس' قائم کیا۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا سینٹر ہے لیکن درحقیقت یہ یونیورسٹی کی ایک بڑی خدمت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی علوم کے حصول اور اس کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور سائنس میں ان کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہر ممکنہ امداد فراہم کرنا، مدارس میں سائنس کی باقاعدہ تدریس شروع کرنے اور اقلیتی اسکولوں میں سائنس کی تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنانے میں مدد کرنا مرکز کی اہم خدمات ہیں اور اس سینٹر کو بلندیوں پر پہنچا نے میں اس کے سب سے پہلے بانی ڈائریکٹر پروفیسر اسرار احمد خان کا اہم رول رہا ہے۔
ورکشاپ میں ہر روز تین نشستوں کا اہتمام کیا گیا، جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بیرون ممالک کے دانشوروں اور ماہرین نے بیش قیمتی لیکچرز اور خطبات پیش کئے۔ پروفیسر محمد رضوان نے قرآن اور سائنس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ اور وحی ہمارے پاس نالج کے دو ایسے سورسز ہیں جن پر ہم سب کا کامل یقین ہے اور قرآنی سائنس اور آج کے سائنس کا بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن بیکڈ سائنسٹفک ایٹیٹوڈ پہلے ایک پریمائس یعنی مفروضہ طے کرتا ہے لیکن آج کے سائنس میں یہ بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہم کس حد تک توہم پرستی سے خود کو اور عوام کو نکال کر حقیقی دنیا سے روشناس کراتے ہیں۔
نظام شمسی پر بات کرتے ہوئے پروفیسر عبد القیوم نے کہا کہ اس تعلق سے بات کرنے والا ایک یونانی فلسفی ارسطو تھا اور ٹالمی نے اس کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے سیاروں اور ان کے مدارج پر تفصیل سے کلام کیا کہ مریخ کیسے کام کرتا ہے پہلے آگے کو بڑھتا ہے پھر پیچھے کو ہٹتاہے۔ انہوں نے سیاروں کی انواع و اقسام پر تفصیل سے گفتگو کی۔ پروفیسر مسرور عالم نے نظام زندگی اور زمین کے آپریٹنگ سسٹم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زندگی کے لیے جنت بنایا ہے۔ اللہ نے زمین کے ٹیمپریچر کو ایسا بنایا کہ ہم زندگی آسانی سے گزار سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو توازن سے پیدا کیا ہے جس سے زندگی گزارنا ہمارے لیے آسان ہوتا ہے۔
پروفیسر حسام الدین نے پودوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پودوں کے کیا فوائد ہیں ان کو جاننا ضروری ہے۔ پروفیسر جابر حسن خان نے موسم اور آب و ہوا پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج موسم کیسے تبدیل ہو رہا ہے جو ہماری صحت کے لیے مضر ہے اور جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، لہٰذا ہمیں اس تعلق سے محتاط رہنا چاہئے۔ انھوں نے اسلامی تناظر میں حیاتیاتی تنوع، ماحول اور آب و ہوا کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ مؤثر تدریس کے عناصر کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ایم عابد صدیقی نے کہا کہ اساتذہ کو تدریسی عمل پر اثر اور طلبہ کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لیے ممکنہ تکنیکی وسائل کا سہارا لینا چاہیے۔ صحت اور حفظان صحت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شارق عقیل نے کہا کہ صحت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کے لئے ہمیں مفید اور صحت بخش غذائیں اختیار کرنی ہو گی۔ پروفیسر ایم اثمر بیگ نے ہندوستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کی ہندوستانی سیاست میں بہت تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہے جس کا واحد سبب دھرم کے نام پر سیاست ہے۔