غذائی قلت کے شکار ننھے محب اللہ کی زندگی خطرے میں تھی لیکن کابل سے باہر ایک چھوٹے سے ضلع ہسپتال میربچہ کوٹ کے ڈاکٹر اسے بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یہاں ہیلتھ ورکرز بغیر تنخواہ، بغیر دوائی اور افغانستان میں بار بار بجلی کی کٹوتی کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میر بچہ کوٹ میں ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز کو گزشتہ پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی۔
بہت سے طبی عملے کا خیال ہے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ ان کے لیے کام تلاش کرنے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے۔
میربچہ کوٹ ہسپتال کی ڈاکٹر گل نذر کا کہنا ہے کہ ''ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر ہم یہاں (ہسپتال) نہیں آنا چاہتے تو ہمارے لیے کوئی اور کام نہیں ہے۔ اگر کوئی اور کام ہو سکتا ہے تو کوئی ہمیں تنخواہ نہیں دے سکتا۔ ایسے میں یہیں رہنا بہتر ہے۔"
22 سالہ محمد جاوید احمدی، جو حال ہی میں طالبان کی طرف سے ہسپتال کے نگران مقرر ہوئے ہیں، وہ اس کے لیے بڑے منصوبے بنا رہے ہیں، لیکن ان سے وہاں کام کرنے والے ڈاکٹروں کو مایوسی ہوئی ہے۔
جنگ سے متاثر ملک میں جن ہیلتھ ورکز نے اپنی پوری زندگی اس اسپتال میں گزار دی اب ہسپتال کے نگران ان سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کس قسم کی ملازمتیں کر سکتے ہیں۔
احمدی کو یہ ہسپتال طالبان حکومت کے ذریعے وزارتوں اور اداروں کے دائرہ کار سے دیا گیا ہے۔
ان کے دن کا پہلا آرڈر رجسٹریشن بک ہے۔ احمدی چاہتے ہیں کہ ہر ڈاکٹر سائن ان اور سائن آؤٹ کریں۔ حالانکہ یہ رسمی بات ہے لیکن اس کو نظر انداز کرنا احمدی کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہے۔