نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جسٹس عبدالنذیر کی آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر تقرری پر مرکز پر بالواسطہ تنقید کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے الزام لگایا کہ جج نے اپنے عہدے سے سمجھوتہ کیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، انہوں نے حکومت پر الزام لگایا اور کہا کہ وہ جج بننے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ہمیں ایماندار ججوں کی ضرورت ہے جو انصاف دے سکیں اور اگر حکومت غلط ہو تو اسے بھی کٹہرے میں کھڑا کر سکے۔انھوں نے پاکستان کے بارے میں بھی بات کی۔ مکمل اور تفصیلی انٹرویو یہاں پڑھیں---
سوال: نائب صدر نے حال ہی میں بی بی سی پر آئی ٹی سروے کے مبینہ حوالے سے کہا ہے کہ یہ من گھڑت بیانیے ہندوستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس لیے جرات مندانہ جواب کی ضرورت ہے، آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: وہ بھارت کو کیوں نیچا دکھائیں گے؟ ایک میڈیا ہاؤس بھارت کو کبھی گرا نہیں سکتا! کوئی کچھ بھی کہے، بھارت اتنا کمزور نہیں کہ کوئی میڈیا ہاؤس اسے نیچے گرا سکے۔
سوال: ہم مرکزی وزیر قانون اور یہاں تک کہ نائب صدر جمہوریہ کے کالجیم سسٹم پر متنازعہ بیانات دیکھ رہے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا NJAC کو ختم کرنا پارلیمانی خودمختاری کے ساتھ سنگین سمجھوتہ ہے اور عوام کے مینڈیٹ کو پامال کیا گیا! کیا آپ کو ان بیانات کا کوئی اور مقصد نظر آتا ہے؟
جواب: سپریم کورٹ کو تنازعات میں نہیں لانا چاہیے، یہ انصاف کی آخری جگہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح کھل کر بات کرنے کے بجائے ایگزیکٹو اور سپریم کورٹ دونوں کو مل کر اس کا حل نکالنا چاہیے۔ درحقیقت یہ سپریم کورٹ کی توہین ہے۔ ایسی باتیں سپریم کورٹ کی عزت سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہندوستان میں کوئی بھی سپریم کورٹ کی بالادستی کو کم کرنا چاہے گا۔ میں واقعی تمام سیاسی جماعتوں اور تمام رہنماؤں کو مشورہ دوں گا کہ خدا کے لیے اس طرح کے متنازعہ معاملات میں نہ پڑیں، ہم واقعی میں سپریم کورٹ کی توہین کر رہے ہیں۔
سوال: لیکن ایسے بیانات بی جے پی کے اعلیٰ رہنماؤں کی طرف سے آرہے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اب خود جج بننا چاہتی ہے تو میرے خیال میں یہ کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے۔یہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے جیسا ہے۔سب کو اس بات کی مخالفت کرنی چاہیے کہ ججوں کی تقرری حکومت کے قبضے میں ہونی چاہیے، میرے خیال میں ایسا کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ایماندار ججوں کی ضرورت ہے جو انصاف دے سکیں اور اگر حکومت غلط ہو تو اسے بھی کٹہرے میں کھڑا کر سکے۔ سپریم کورٹ کو ایسا ہونا چاہیے، کیونکہ انصاف حاصل کرنے کا یہ آخری راستہ ہے، چاہے وہ حکومت کے لیے ہو یا عام آدمی کے لیے۔
سوال: سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ایس اے نذیر کی ریٹائرمنٹ کے ایک ماہ بعد آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر ترقی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جج کو خود اس عہدے کو قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پہلے کولنگ پیریڈ ہونا چاہیے اور حکومت ہمیشہ یہی کرتی رہی ہے۔ لیکن، انھیں اس طرح تعینات کرکے، انہوں (حکومت) نے ان (جج) کی بھی توہین کی ہے۔کیونکہ یہ اب لوگوں کی نظروں کے سامنے ایک ایسے شخص دکھائی دے رہے ہیں جس نے حکومت کے فیصلے کا ساتھ دیا ہے، چاہے وہ تین طلاق ہو یا ایودھیا فیصلہ، اور دیگر معاملات جن کا فیصلہ حکومت اپنے حق میں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس کا حصہ تھے، اس لیے وہ پہلے ہی اپنی پوزیشن سے سمجھوتہ کر چکے تھے۔ تو یہ ہندوستان کے پہلے چیف جسٹس کی طرح ہے جسے راجیہ سبھا کی نشست دی گئی (رنجن گوگوئی کا حوالہ دیتے ہوئے)۔ کیا وہ بھی غلط نہیں تھا؟ اس طرح وہ اپنی حیثیت کو مجروح کر رہے ہیں۔ اس طرح کی باتیں عام آدمی کی نظروں میں عدلیہ کی شبیہ کو داغدار کر رہی ہیں۔
سوال: بلڈوزر سیاست کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ کیا آپ کو دکھ ہوتا ہے جب آپ لوگوں کو اس حکومتی عمل پر خوش ہوتے دیکھتے ہیں؟ کیا ہندوستان بدل گیا ہے؟
جواب: یہ بہت افسوسناک ہے۔ حکومت نوکریاں دینے سے قاصر ہے۔ کوئی 50 سال سے دکان چلا رہا ہے اور آپ آکر اسے توڑ دیں، اس سے بہت غلط پیغام جاتا ہے۔کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ انہیں سڑکوں پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اس کے خاندان کا، اس کے بچوں کا کیا؟ ان کے اسکول/کالج کی فیس کون ادا کرے گا؟ ان کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ وہ کام ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ کام کرنے کا جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ مجھے بہت دکھ ہے کہ لوگ اس کاروائی پر جشن منا رہے ہیں۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ ایک دن محسوس کریں گے کہ یہ قوم ہم سب کے لیے ہے، چاہے ان کا مذہب، زبان، ثقافت اور مقام کچھ بھی ہو، ہم سب کو مل کر اس ملک کو مضبوط کرنا ہے اور ہم اس ملک کو تقسیم کرکے مضبوط نہیں کر سکتے، کیا یہ تنوع میں وحدت ہے؟ یہاں تک کہ امبیڈکر بھی اس بارے میں بالکل واضح تھے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب ٹھیک ہے لیکن مذہب کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اس قوم کی باگ ڈور میں شامل کیا جائے، اگر ایسا ہوا تو آپ خود آئین کو تباہ کرنے جارہے ہیں۔
سوال: قوم کی تعمیر میں مذہب کا کیا کردار ہے؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ قوم کی تعمیر میں ہر ہندوستانی کا کردار ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔