سوال: یوکرین پر روس کے حملے پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ یوکرین امریکہ کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکا ہے اور وہ جنگ کی طرف لے گئے ہیں؟
جواب: نہیں، مجھے ایسا نہیں لگتا۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین کبھی دنیا کا سپر پاور ہوا کرتا تھا، لیکن اب وہ ایسا نہیں رہا۔ پیوتن غیر جمہوری طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم تین دن میں جنگ ختم کر دیں گے لیکن یہ 34ویں دن میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ اب پوری دنیا سے یوکرین کے لیے ہمدردی آ رہی ہے۔ وہ بہت بہادری سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ روس ان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ Subramanian Swamy In An Exclusive Interview With ETV Bharat
سوال: لیکن روس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ان پر سکیورٹی خطرہ پیدا ہو گیا ہے؟
جواب: دیکھئے اب یوکرین نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور یوکرین نے روس کے کسی علاقے پر حملہ بھی نہیں کیا۔ وہ 1992 تک ساتھ تھے۔ اس کے بعد وہ الگ ملک بننے پر راضی ہو گئے۔ دونوں اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ پیوتن نے یوکرین کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، اب ان پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔
سوال: کیا اقوام متحدہ کے کردار پر سوال نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟
جواب: دیکھئے اقوام متحدہ تو بحث والی جگہ ہے۔ امن فوج بھیجنے تک ان کا کردار درست ہے لیکن جب بھی پی 5 کے ممالک جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو اقوام متحدہ بے اثر ہو جاتا ہے۔ آج بھی اقوام متحدہ میں روس نہیں بلکہ یو ایس ایس آر لکھا ہوا ہے۔
سوال: روس یوکرین جنگ پر نئی دہلی نے جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب: ہم روس سے ہتھیار خریدتے رہے ہیں، یہ صحیح ہے لیکن یہ افواہ پھیلانا کہ روس نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے یہ غلط ہے۔ یوکرین کو پاکستان کا اتحادی کہنا بھی غلط ہے۔ 1992 سے پہلے سوویت یونین بھارت کی حمایت کرتا تھا۔ اس وقت یوکرین بھی اس کا حصہ تھا۔
سوال: لیکن یوکرین نے بھارت کے جوہری تجربے کی مخالفت کی۔
جواب: اگر ایسا ہے تو امریکہ نے بھی مخالفت کی تھی، برطانیہ نے بھی مخالفت کی تھی، دنیا کے دوسرے ممالک نے بھی بھارت کی مخالفت کی تھی۔ لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے۔ آج ہمارے ان ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ہمیں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کی مدد کرنی چاہیے۔
سوال: چین کے وزیر خارجہ ابھی بھارت آئے تھے۔ اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے، کیوں کہ یہاں آنے سے پہلے وہ افغانستان بھی گئے تھے۔
جواب: جی ہاں، چینی وزیر خارجہ نے حقانی سے ملاقات بھی کی۔ وہ افغانستان میں برسراقتدار ہے۔ وہ اقوام متحدہ کا نامزد دہشت گرد ہے۔ اس کے بعد چین کے وزیر خارجہ دہلی آئے۔ چین نے حقانی کو یقین دلایا ہے کہ وہ پی او کے کے ذریعے بی آر آئی لے جائیں گے۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ انھیں بھارت آنے کے لیے نہیں کہا جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں وزیر خارجہ اور این ایس اے دونوں ان سے ملنے گئے۔ چین کے وزیر خارجہ فلسطین اور کشمیر کو ایک ہی سمجھتے تھے۔ چین نے ہماری چار ہزار کلومیٹر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایل اے سی پر معاہدے کے دوران طے پایا کہ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے، اوکسائی چین پاکستان کے حصے میں رہے گا۔ اس کے باوجود چین نے اس کی خلاف ورزی کی۔ اس لائن کو عبور کیا اور دیپسانگ تک پہنچ گئے۔ ڈیمچاک پر خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔