نریندر مودی نے 26 مئی 2014 کو بھارت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا۔ وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم ہیں جو آزادی کے بعد پیدا ہوئے۔ 17 برس کی عمر میں، انہوں نے ایک غیر معمولی فیصلہ لیا جس نے ان کی زندگی بدل دی۔ انہوں نے گھر چھوڑنے اور ملک بھر کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خاندان اس فیصلے پر حیران تھا، لیکن انہوں نے چھوٹے شہر کی محدود زندگی کو چھوڑنے کی خواہش کو آخر کار قبول کر لیا۔ انہوں نے جن مقامات پر سفر کیا ان میں ہمالیہ (جہاں وہ گروداچٹی میں ٹھہرے تھے)، مغربی بنگال میں رام کرشن آشرم اور یہاں تک کہ شمال مشرق بھی شامل ہے۔ ان دوروں نے اس نوجوان پر زبردست اثرات مرتب کیے۔ یہ ان کے لیے روحانی بیداری کا وقت بھی تھا، جس نے نریندر مودی کو اس شخص کے ساتھ زیادہ گہرائی سے جڑنے کا موقع دیا، جس کے وہ ہمیشہ سے مداح رہے ہیں۔ وہ ہیں سوامی ویویکانند۔ story of life journey Prime Minister Narendra Modi
نریندر مودی دو برس بعد واپس آئے لیکن صرف دو ہفتے گھر پر رہے۔ اس بار ان کا ہدف مقرر تھا اور مقصد واضح تھا۔ وہ احمد آباد جا رہے تھے۔ انہوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ کام کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ آر ایس ایس سے ان کا پہلا تعارف آٹھ برس کی چھوٹی عمر میں ہو گیا تھا جب وہ آر ایس ایس کے نوجوانوں سے مقامی میٹنگ میں شرکت کرتے تھے۔ ان اجلاس میں شرکت کا مقصد سیاست سے بالاتر تھا۔ یہیں ان کی ملاقات لکشمن راؤ انعامدار سے ہوئی، جنہیں 'وکیل صاحب' بھی کہا جاتا ہے، جن کا ان کی زندگی پر سب سے بڑا اثر تھا۔
نریندر مودی تقریباً 20 برس کی عمر میں گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد پہنچ گئے۔ وہ آر ایس ایس کے باقاعدہ رکن بن گئے اور اس کی لگن اور تنظیمی صلاحیتوں نے وکیل صاحب اور دیگر کو متاثر کیا۔ سنہ 1972 میں وہ پرچارک بن گئے اور آر ایس ایس کو پورا وقت دینا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ نریندر نے پولیٹیکل سائنس میں اپنی ڈگری مکمل کی۔ انہوں نے تعلیم کو ہمیشہ اہم مانا۔ ایک پرچارک کی حیثیت سے، انہیں پورے گجرات کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ سنہ 1972 اور 1973 کے درمیان وہ نڈیاڈ کے سنترام مندر میں رکے۔ سنہ 1973 میں نریندر مودی کو سدھ پور میں ایک بہت بڑی کانفرنس کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، جہاں وہ آر ایس ایس کے اعلیٰ رہنماؤں سے ملے۔
عوامی عدم اطمینان اس وقت عوامی غم و غصے میں بدل گیا جب دسمبر 1973 میں موربی (گجرات) انجینئرنگ کالج کے کچھ طلبا نے اپنے کھانے کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ اسی طرح کے مظاہرے گجرات کی دیگر ریاستوں میں بھی ہوئے۔ ان مظاہروں کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملنا شروع ہوئی اور حکومت کے خلاف ایک بڑی تحریک نے جنم لیا، جسے نونرمان آندولن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
نریندر مودی نے بڑے پیمانے پر عوامی تحریک کھڑی کرنے میں حصہ لیا، جسے سماج کے تمام طبقات کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس تحریک کو اس وقت مزید تقویت ملی جب ایک قابل احترام عوامی شخصیت اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والے جے پرکاش نارائن نے اس تحریک کو اپنا تعاون دیا۔ جے پرکاش نارائن احمد آباد آئے تو نریندر مودی کو ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ دیگر تجربہ کار رہنماؤں کے زیر اہتمام کئی پروگرامز نے نوجوان نریندر مودی پر ایک مضبوط تاثر چھوڑا۔ آخر کار طلبہ کی طاقت جیت گئی اور اس وقت کے کانگریس کے وزیر اعلیٰ کو استعفیٰ دینا پڑا۔ تاہم یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ 25 جون 1975 کی آدھی رات کو ملک پر آمریت کے سیاہ بادل چھا گئے، جب اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک پر ایمرجنسی نافذ کی۔
اندرا گاندھی کے انتخاب کو عدالت نے منسوخ کر دیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں خدشہ تھا کہ اعلیٰ عہدہ گنوانا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ ان حالات میں ایمرجنسی بہترین آپشن ہے۔ جمہوریت سلاخوں کے پہرے میں چلی گئی۔ اظہار رائے کی آزادی چھین لی گئی اور اٹل بہاری واجپائی، ایل کے اڈوانی، جارج فرنانڈیز سے لے کر مرارجی دیسائی تک کو گرفتار کر لیا گیا۔