شوکت پردیسی کا تعلق ریاست اترپردیش کے ضلع جونپور سے تھا، تاہم ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں گزرا۔
شوکت پردیسی 1924 میں ملیشیا میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصلی نام محمد عرفان تھا۔ ان کا آبائی گاؤں، جونپور شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موضع معروف پور تھا۔
ضلع جونپور کی ادبی و تاریخی سر زمین سے تعلق رکھنے والا شاعر و نغمہ نگار شوکت پردیسی کتابوں کے اوراق و صفحات میں پوشیدہ تھے۔
ان کے بیٹے محمد ندیم نے اپنے والد کے اشعار و کلام کو یکجا کر کے کتابی شکل دے کر منظرِ عام پر لاکر ان کی شخصیت کو روز روشن کی طرح دنیا کے سامنے عیاں و بیاں کر دیا تو وہیں محمد ندیم کی اس نیک پہل کو علمی و ادبی حلقوں میں کافی سراہا بھی جا رہا ہے۔
ان کی اس کاوش کی وجہ سے اردو دنیا میں شاعر شوکت پردیسی کا نام دوبارہ زندہ و تابندہ ہو گیا۔
شوکت پردیسی نے بنیادی تعلیم ملیشیا سے حاصل کی، 12 سال کی عمر میں والدین کے ساتھ ہندوستان آ گئے۔ 2 سال تک لکھنؤ میں مقیم رہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی تعلیم حاصل کی۔ گرچہ سند فراغت حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد جونپور شہر میں سکونت اختیار کر لی، شہر کے مشن اسکول حال راج کالج میں داخلہ لیا اور تعلیمی سلسلہ مڈل اسکول تک چلا۔ سنہ 1957 میں ممبئی سے لوٹنے کے بعد بقیہ زندگی کے ایام اپنے سسرال جمدہاں میں گزاری۔
شوکت پردیسی کا تعلق ادبی و علمی گھرانے سے تھا جس کا نتیجہ یہ رہا کہ وہ 14 سال کی عمر سے ہی شعر و سخن میں شغف رکھنے لگے تھے۔ کم عمری میں ہی ایک غزل کہی جس کا ایک شعر قارئین کی نظر ہے۔
ہم نشیں ابتدائے الفت میں
نظر انجام پہ نہیں جاتی
معروف و مشہور شاعر شوکت پردیسی کے بڑے بیٹے شمیم احمد نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ والد صاحب کو ان کی حیات میں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا، جس کے وہ حقدار تھے۔
انھوں نے کہا کہ شوکت پردیسی خاموش طبع شخصیت تھے۔ ان کو تشہیر بالکل پسند نہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ خود ہم لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کی شاعری اس مقام و مرتبہ کی ہے۔
اور اتنی خاموشی کے ساتھ وہ اردو ادب کی خدمت کر رہے ہیں لیکن اتنا علم تو ضرور تھا کہ ان کی شاعری اس وقت کے اردو حلقوں میں کافی مقبول تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کے تقریباً ہر ادبی رسالے میں ان کے نظم و اشعار شائع ہوتے رہتے تھے۔ شوکت پردیسی کو کثیرالاشاعت شاعر کہا جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ شوکت پردیسی کی شاعری میں ان کی انفرادی زندگی کے پر صعوبت ایام کی داستان سننے کو ملتی ہے۔ انہوں نے اپنے درد و پریشانیوں کو اپنی شاعری میں ڈھالا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب آپ ان کے اشعار پڑھیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ حال صرف شوکت پردیسی کا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔ اس حساب سے ان کے دکھ و درد سے پُر شاعری انفرادی نہ ہو کر اجتماعی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
شوکت پردیسی کے صاحبزادے نے بتایا کہ ہر میدان کے فنکار کو یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی حیات میں اس کے ہنر و فن کی پذیرائی کی جائے مگر وقت کی ستم ظریفی کہیے کہ شوکت پردیسی کی زندگی میں ان کا کلام مجموعہ کی شکل میں منظرِ عام پر نہ آ سکا۔