اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

کورونا وائرس کی دوسری لہر حکومت کی غیر ذمہ داری کا نتیجہ

کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے بنائے گئے ٹاسک فورس نے اگر اپنا کام ٹھیک طرح سے کیا ہوتا تو ملک کو اس وقت روزانہ تین لاکھ متاثرین اور متاثرین میں سے 10 فیصد کی اموات کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔

second wave of coronavirus
second wave of coronavirus

By

Published : Apr 22, 2021, 10:24 PM IST

دوسری لہر کی شکل میں کووِڈ 19 کے زبردست پھیلاؤ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں وبا کی دوسری لہر کا تجربہ سامنے ہونے کے باوجود بھارتی حکام (خواہ وہ جو بھی ہوں) نے احتیاطی اقدامات کو نافذ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی طبی شعبے کو اس کے لیے تیار رکھنے کا کوئی اقدام کیا گیا۔ اس عدم توجہی کے نتیجے میں کووِڈ 19 کی دوسری لہر شدت کے ساتھ نمودار ہوگئی۔

اگرچہ وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس وقت زمینی صورتحال بہتر ہے لیکن پچھلے سال کے مقابلے میں متاثرین کی تعداد میں تین گنا اضافہ اور اموات کا بڑھ جانا ایک شدید بحران کا عندیہ دیتا ہے۔

مرکز کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کووِڈ ٹیسٹنگ سینٹرز کی تعداد بڑھا کر 2500 کردی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی دارالحکومت دہلی میں مریضوں کے بھاری رش کی وجہ سے ٹیسٹنگ کا عمل دو دن تک بند کرنا پڑا تھا۔

ہسپتالوں میں بیڈز کی کمی نے یہ دعوے کھوکھلے ثابت کردیئے ہیں کہ کووِڈ اسپیشل ہسپتال قائم کردیئے گئے ہیں۔ آکسیجن کی قلت کی وجہ سے ہوئی اموات کو دیکھ کر دل پسیج جاتا ہے۔

کل تک بھارت نے 70 ممالک کو کووِڈ ویکسین کی 6.6 کروڑ خوراکیں ایکسپورٹ کردیں اور آج ملک میں اپنے شہریوں کے لیے ہی ویکسین کا اسٹاک دستیاب نہیں ہے۔

حکومت کی بے عملی اس بات سے بھی عیاں ہے کہ نوجوان ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مریض اُن طبی مسائل کی وجہ سے مررہے ہیں جن مسائل کا تدارک کیا جاسکتا تھا۔ اگرچہ مرکز نے 162 آکسیجن پروڈکشن سینٹرز کو قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے تاہم ان میں سے عملی طور پر ایک پانچواں حصہ ہی قائم کیا گیا ہے۔

کووِڈ کو کنٹرول کرنے سے متعلق وزیر اعظم کی جانب سے بنائے گئے ٹاسک فورس نے اگر اپنا کام ٹھیک طرح سے کیا ہوتا تو ملک کو اس وقت روزانہ تین لاکھ متاثرین اور متاثرین میں سے 10 فیصد کی اموات کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ حکومت کی موجودہ ویکسین پالیسی بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔

پوری دُنیا میں استعمال ہونے والی ویکسین کا 60 فیصد بھارت میں تیار کیا جاتا ہے لیکن یہ بات ششدر کردینے والی ہے کہ اسی ملک کو آج خود ویکسین کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

پوری دُنیا میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ ویکسین کی بدولت کافی حد تک کووِڈ کے خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔ دُنیا میں یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ ویکسین کی وجہ سے کووِڈ کو مزید پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ اموات میں بھی کمی کی جاسکتی ہے۔

جس وقت کووِڈ ویکسین تجربے کے مرحلے سے گزررہا تھا، امریکہ نے اپنی 30 کروڑ کی آبادی کے لیے ویکیسن کی 60 کروڑ خوراک کا آرڈر دیا اور اس کے لیے پیشگی ادائیگی بھی کی تھی لیکن بھارت نے اپنی 130 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 1.1 کروڑ کووِڈ خوراکوں کا آرڈر دیا۔

اگرچہ ٹیکہ کاری کے پروگرام کی شروعات 16 جنوری سے کی گئی ہے لیکن تین کروڑ فرنٹ لائن ورکرز میں سے صرف 37 فیصد نے ہی پہلے مرحلے میں ٹیکہ لگوایا ہے۔ اس کے بعد حکومت نے 45 سے 60 سال تک کی عمر کے ہر شہری کو ویکیسن لگوانے کی منظوری دے دی۔

تاہم آج صورتحال یہ ہے کہ کئی ریاستیں ویکسین کے حصول کے لیے گِڑ گِڑا رہی ہیں۔ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے پیداوار بڑھانے کی اجازت دینے میں تاخیر کئے جانے اور تین پبلک سیکٹر آرگنائزیشنز کو ویکسین تیار کرنے کے عمل میں شراکت کی اجازت دینے میں وقت ضائع ہوجانے کے نتیجے میں وائرس بہت خطرناک طریقے سے پھیل رہا ہے۔

اب حکومت نے ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کی مالی معاونت کردی ہے اور دوسری جانب اس نے 18 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ٹیکے لگوانے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ مرکز نے 45 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ویکسین لگوانے کی ذمہ داری لی ہے جبکہ دوسرے ایچ گروپس کو ویکسین لگوانے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں اور پرائیویٹ سیکٹر پر ڈال دی گئی ہے۔

لوگوں کا روزگار چھِن جانے کی وجہ سے اُنہیں شدید مالی دُشواریوں کا سامنا ہے۔ آمدنی میں گراوٹ کی وجہ سے ریاستی حکومتوں کو بھی مالی بحران کا سامنا ہے۔ اس نازک مرحلے پر مرکزی حکومت کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں سے دامن جھاڑنا ایک غیر منطقی بات ہے۔

اب جبکہ ویکسین کا اسٹاک محدود ہے، ریاستیں اسے حاصل کرنے کی دوڈ میں لگی ہوئی ہیں۔ اس دوڈ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کی وجہ سے ملک کے وفاقی اسپرٹ کی جڑیں متاثر ہورہی ہیں۔

کیا کووِڈ کی وجہ سے اموات کا سلسلہ تب تک رُک سکتا ہے جب تک مرکز ویکسین کی پروڈکشن اور اس کی مفت فراہمی کی یقین دہانی نہیں کرے گا؟

ABOUT THE AUTHOR

...view details