آج سپریم کورٹ نے راجستھانی کسانوں کی ایک تنظیم کسان مہا پنچایت کے جنتر منتر پر 200 کسانوں کے غیر معینہ مدت کے لیے ’ ستیہ گرہ‘ کرنے کے لیے اجازت طلب کرنے سے متعلق ایک عرضی پر شنوائی کی۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے حکم دیا ہے کہ جنتر منتر پر ستیہ گرہ کرنے کی اجازت کے لیے پیر تک حلف نامہ داخل کریں۔
سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے مشتعل افراد کی جانب سے قومی شاہراہوں کو بار بار بلاک کرنے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔عدالت نے کہا کہ احتجاج کی وجہ سے آمدورفت میں روکاوٹ پیدا ہو رہی ہے اور اس وجہ سے قومی شاہراہوں کو بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے دہلی میں 'ستیہ گرہ' کرنے کی اجازت کا مطالبہ کر رہے کسانوں کی ایک تنظیم سے کہا کہ 'آپ نے شہر کا گلا گھونٹ دیا اور اب اس کے اندر داخل ہونا چاہتے ہیں'۔
عدالت نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ کیا شہر میں دھرنا سے یہاں کے لوگ خوش ہیں؟ کیا شہر کے لوگ اپنا کاروبار بند کردیں ؟ سڑکوں کو جام کیے جانے سے عام لوگوں کو ہی نہیں سکیورٹی اہلکار بھی پریشان ہیں۔ کیا ان کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی ہے؟
جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس روی کمار کی بنچ نے کہا کہ آپ نے زرعی قوانین کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، اس کا مطلب آپ کو عدالت پر بھروسہ ہے۔ پھر آپ کو احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
ستیہ گرہ کے لیے اجازت مانگنے کے سوال پر سپریم کورٹ نے عرضی گذار سے کہا کہ وہ حلف نامہ داخل کر کے یہ بتائیں کہ وہ قومی شاہراہوں کو جام کرنے میں ملوث نہیں ہیں۔ عرضی گذار کے وکیل اجے چودھری نے عرضی گذار کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ وہ (تحریک کار کسان) سڑک جام نہیں کر رہے ہیں بلکہ پولیس نے انھیں حراست میں لیا ہے۔