جزوی طور پر یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے جی 7 رہنماؤں نے طالبان کی زیر قیادت حکومت کے ساتھ مستقبل کے مذاکرات کو چند شرائط کے ساتھ تسلیم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
جی-7 گروپ کے رہنماؤں نے منگل کو ایک ہنگامی اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ افغانستان سے غیر ملکیوں اور افغان شراکت داروں کا محفوظ انخلا ان کی فوری ترجیحات میں سے ہے۔ رہنماؤں نے اصرار کیا کہ وہ افغان کی طرف سے اس کے عمل سے فیصلہ کریں گے نہ کہ الفاظ سے۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ ہم دوبارہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو روکنے کے علاوہ طالبان، خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کے لیے جوابدہ ہوں گے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، جنہوں نے گروپ آف سیون کے موجودہ صدر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کی، نے مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ جی 7 کے رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا ہے۔ اگرچہ مشترکہ بیان سے صاف واضح ہوتا ہے کہ افغانستان سے امریکی قیادت والے نیٹو کے انخلا کی آخری 31 اگست میں توسیع کا معاہدہ عمل میں نہیں آیا۔
جانسن نے اعلان کیا کہ جی 7 کی پہلی شرط یہ ہے کہ طالبان کو ان لوگوں کے لیے محفوظ راستے کی ضمانت دینی چاہیے جو ڈیڈ لائن کے بعد بھی ملک سے نکلنا چاہتے ہیں۔
وہیں، دوسری جانب جانسن، فرانس اور جرمنی کے ساتھ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن پر زور دیں گے کہ وہ طالبان کے ساتھ ڈیڈ لائن میں توسیع کریں تاہم امریکی میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ بائیڈن رواں ماہ کے آخری تاریخ کی ٹائم لائن پر قائم ہیں، یہاں تک کہ کابل سے طالبان کی تازہ ترین پریس کانفرنس نے توسیع کے امکان کو مسترد کردیا۔
ورچوئل سمٹ کے اختتام پر جاری G7 کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ہماری فوری ترجیح اپنے شہریوں اور ان افغان باشندوں کے محفوظ انخلا کو یقینی بنانا ہے جنہوں نے ہمارے ساتھ شراکت داری کی اور گذشتہ 20 سالوں میں ہماری کوششوں میں مدد کی۔ ہم اس پر قریبی نظر بنائے رکھیں گے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ تمام فریق اس سہولت کو جاری رکھیں گے اور انسانی و طبی عملے اور دیگر بین الاقوامی خدمات فراہم کرنے والوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے۔