ریاست مغربی بنگال کے اردو شعراء میں ممتاز درجہ رکھنے والے برگ شاعر قیصر شمیم کا آج صبح انتقال ہو گیا۔ قیصر شمیم شاعر کے ساتھ ساتھ بطور ادیب مترجم اور صحافت میں بھی ایک منفرد مقام کے رکھتے تھے۔
وہ گذشتہ 15 روز سے علیل تھے اور ایک نرسنگ ہوم میں زیر علاج تھے، تین روز قبل ہی کچھ افاقہ ہونے پر گھر لوٹے تھے لیکن ان کو برین ہیمبرہیج ہوا اور پھر طبیعت مستحکم نا ہوسکی اور آج صبح اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
اہل بنگال ان کو حضرت قیصر شمیم کہتے تھے۔ بنگال کے عظیم شعراء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان کا اصل نام عبدالقیوم خان ہے۔ ان کی پیدائش 2 اپریل 1936 میں ہوئی تھی۔ ان کا تعلق ہگلی ضلع کے انگس سے تھا۔
جب انہوں نے شاعری کی ابتدا کی تو عمید انگسی تخلص کا استعمال کرتے تھے۔ 1951 سے 1957 تک عمید انگسی کے نام سے ہی لکھتے رہے اور 1957 تا حال قیصر شمیم کے نام سے مقبول رہے۔ قیصر شمیم نصف درجن سے زائد کتابوں کے مصنف رہ چکے ہیں۔ مختلف کتابوں کے مولف بھی ہیں جبکہ مختلف رسائل اور اخبارات سے صحافتی وابستگی بھی رہی ہے۔
مرحوم مغربی بنگال اردو اکایڈمی کے وائس چئیرمین بھی رہ چکے ہیں۔ اردو ادب میں ان کی خدمات کے لئے مغربی بنگال اردو اکاڈمی سے عبدالرزاق ملیح آبادی ایوراڈ سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار علمی و ادبی اداروں کی طرف سے ان کو پذیرائی کی جا چکی ہے۔ وہ سرگرم ادبی ادارہ ہوڑہ رائٹرس ایسوسی ایشن کے صدر بھی تھے۔
مزید پڑھیں:۔معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر مرغوب بانہالی انتقال کر گئے
ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور ایک فرزند عرفان الحیات ہیں۔ قیصر شمیم کو عالمی سطح پر بھی شہرت حاصل تھی، لندن کے مشاعرے میں بھی ان کو مدعو کیا گیا تھا۔ خضر پور کالج میں بحیثیت لیکچرر خدمات انجام دیئے کلکتہ یونیورسٹی میں بھی گیسٹ لیکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ پروفیسر عباس علی بیخود کے شاگرد تھے۔