مظفرنگر فساد میں ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے تھے اور ان میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے خوف ودہشت کے سبب واپس اپنے گھروں کو لوٹنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ لوگ اب تک مختلف جگہوں پر انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ جمعیۃ علما ہند نے اپنی دیرینہ روایت کے مطابق ابتدا ہی سے ان کی امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
جمیعۃ علما ہند نے اس سے قبل مختلف مقامات پر 311 مکانات، مسجد اور مکتب کی تعمیر کراکر متاثرین کو ان میں آباد کیا ہے۔ مولانا مدنی نے 28 مارچ 2019 کو 151 مکانوں پر مشتمل ایک اور مجوزہ جمعیۃ کالونی کا مظفرنگر کے باغونوالی گاؤں میں افتتاح کیا تھا، اس وقت ان میں سے تیارشدہ 85 مکانوں کی چابھیاں متاثرین کے حوالہ کی جاچکی ہیں، درمیان میں کورونا کی وجہ سے بازآبادکاری کا کام قدرے متاثر رہا اور آج مولانا مدنی نے بقیہ 66 مکانوں کی چابھیاں متاثرین کے حوالہ کیں، ساتھ ہی اسی کالونی میں متاثرین کے بچوں کی دینی تربیت کے لئے مکتب اور پنج وقتہ نماز کے لیے ایک مسجد کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس طرح سے اب تک مظفر نگرفساد متاثرین کے لیے 466 مکانات تعمیر کرکے ان میں متاثرین کو بسایا جاچکا ہے۔
فساد متاثرین کی نئے گھروں میں منتقلی سے متعلق منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ '27 اگست 2013 میں اترپردیش کے شہر مظفرنگر میں جو فسادات ہوئے انہیں اس لیے بھی بدترین فسادات کی فہرست میں رکھا جاسکتا ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا کہ اپنی جان کے خوف سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے آبائی گھروں سے نقل مکانی کی، ان فسادات میں پولیس نے حسب معمول بے حسی اور جانب داری کامظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 'جب مظفرنگر میں فساد ہوا ریاست میں اکھلیش یادو کی حکومت تھی، ملک کی جمہوری تاریخ میں پہلی بارایسا ہوا کہ جب کسی حکومت نے فسادمیں مارے گئے افراد کے اہل خانہ کو فی کس دس لاکھ روپے معاوضہ دیا اور ایسے تقریبا ڈھائی ہزار لوگوں کو جو راحتی کیمپوں میں رہ رہے تھے انہیں بھی فی کس پانچ لاکھ روپے کا معاوضہ ریاستی حکومت سے ملا'۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ 'ان 24 افرادکو جو لاپتہ تھے اور انتظامیہ جنہیں مردہ تسلیم نہیں کررہی تھی ہمارے اصرار پر اکھلیش حکومت نے نہ صرف یہ کہ انہیں مردہ تسلیم کرلیا بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی دس لاکھ روپے فی کس معاوضہ دیا'۔ مولانا مدنی نے کہا کہ 'جمعیۃ علما ہند حالات کے ہر نازک موڑ پر ہمیشہ ملک کے مظلوموں سے قدم سے قدم ملاکر کھڑی رہی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا (انشاء اللہ)۔ جمعیۃ علما ہند ایک مذہبی جماعت ہے، لیکن یہ اکثریت اور اقلیت کے امتیاز سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بنیادپر خدمت کا فریضہ انجام دیتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'جن لوگوں نے خوف وہراس کی وجہ سے اپنے گھروں کو جانے سے انکارکردیا تھا وہ لوگ روزگار سے بھی پریشان تھے اس لئے ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے لئے شہر سے قریب مکانات بنائے جائیں، تاکہ انہیں روزگار تلاش کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو'۔ مولانا مدنی نے کہا کہ 'پورے ملک میں فسادات کے سلسلے دراز تر ہوتے جارہے ہیں۔ اس لئے مسئلہ کا حل یہ قطعی نہیں ہے کہ لوگ اپنے گاؤں کو چھوڑ دیں۔کیوں کہ ہمارا ملک بھارت صدیوں سے امن واتحاد اور محبت کا گہوارہ رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگ صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں مذہبی رواداری بھارت کی بنیادی شناخت ہے۔آج کے حالات میں یہ بہت ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا کو بحال کرنے کے لئے سیکولر اور انصاف پسند لوگ آگے آئیں'۔ انہوں نے کہا کہ 'منافرت کی زمین پر اب محبت کے پود لگانے کی ضرورت ہے ہم اس طرح فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے مستقل ایک طبقہ ہر حکومت میں سرگرم رہا جس نےکبھی مسلمانوں کو سکون سے جینے نہیں دیا'۔
مولانا مدنی نے کہا کہ فسادات کی ایک طویل تاریخ ہے، ملک کا کوئی شہر یسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کا خون نہ بہا ہو، مولانا مدنی نے کہا کہ 'فرق اتنا ہے کہ اب سب کچھ کھلے طورپر ہورہا ہے، ایک سیکولر دستورکی موجودگی کے باوجود مسلمانوں کو اکثریت کی طرح یکسانیت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق نہیں دیا جارہا ہے، سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والے ملک کے لئے یہ انتہائی شرمناک ہے'۔ مولانا مدنی نے کہا کہ '15اگست کو ہم نے ملک کی آزادی کے پچھتر سال پورا ہونے کا جشن روایتی جوش وخروش سے منایا ہے لیکن کیا یہ وہی آزادی ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھاتھا؟ نہیں یہ وہ آزادی ہرگز نہیں ہے، جس کے لئے ہمارے اسلاف نے عظیم قربانیاں دیں یہاں تک کہ ہنستے ہنستے وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے تھے'۔
انہوں نے جمعیۃ کی بازآبادکاری مہم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ' پورے ملک میں جب جب ملک و ملت پر کوئی افتاد نازل ہوئی جمعیۃ علماء ہند بلا تامل انسانی قدروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے میدان عمل میں آتی ہے اور متاثرہ افراد کی ریلیف نیز بازآبادکاری کے لئے جس طرح عملی سطح پر اپنی خدمات پیش کرتی رہی ہے یہ بھارت کی ملی جماعت کے لئے بے نظیر ہی نہیں بلکہ لائق تقلید بھی ہے'۔ خاص طور پر گزشتہ دو برسوں میں کیرالا میں 123مکانات کی مرمت اور 85 مکانوں کی تعمیر کی، جس میں ایک مکان کی مرمت پہ تقریبا ایک لاکھ روپے جبکہ ایک نئے گھر کی تعمیر پہ چار لاکھ کا روپے خرچ آیا، دہلی فساد متاثرین کو 130 مکانات اور مساجد کی تعمیر، آسام میں 520 مکانات 10 مساجد اور مختلف علاقوں میں مکاتب کی بھی تعمیر کرائی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ 'مہاراشٹرمیں سیلاب متاثرہ علاقوں میں جمعیۃ علما ہند کے نمائندے اور رضاکار امداد اور راحت رسانی کے کام میں مصروف ہیں، کوکن کے بعض علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں، ہم نے ان کی بازآبادکاری کا بھی خاکہ تیار کرلیا ہے اور اس کے لیے دوکروڑ روپے کا فنڈ بھی مختص کیا جاچکا ہے'۔ انہوں نے آخرمیں کہا کہ 'ملک میں قدرتی آفات کی شکل میں جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے جمعیۃعلماء ہند ملک کے عوام کے ساتھ کھڑی نظرآتی ہے، ہر چند کہ یہ ایک مذہبی تنظیم ہے لیکن امداد اور راحت رسانی کا ہر کام وہ مذہب سے الگ ہٹ کر انسانیت کی بنیاد پر کرتی ہے اتحاد اور یکجہتی اس کا نصب العین ہے اور سیکولرازم کی بقا وتحفظ اس کا ہمیشہ سے اولین مقصد رہا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے فرقہ پرستی کے سامنے کبھی سرنہیں جھکایا۔ مولانا مدنی نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر کہا کہ اگر یہ سب کچھ اسی طرح چلتارہا تو کل ملک کو ایک سنگین تباہی سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے'۔
مزید پڑھیں:اندور ہجومی تشدد، متاثر کے خلاف مقدمہ
انہوں نے کہا کہ 'وہی ملک ترقی کرتاہے جو اپنے شہریوں کو امن وامان کے ساتھ جینے کی ضمانت دیتاہے، انصاف کے دوپیمانے نہیں رکھتا اور اکثریت واقلیت میں کوئی تفریق نہیں کرتا'۔ انہوں نے کہا کہ 'جمعیۃعلماء ہند ایک مذہبی تنظیم ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ہم قوم کو بیدار توکر سکتے ہیں، ملک میں جوکچھ ہو رہا ہے اورجس طرح آئین کو روندا جارہا ہے اس پر کوئی بھی انصاف پسند خاموش نہیں رہ سکتا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزادی کی تاریخ میں جن کا دوکوڑی کا بھی حصہ نہیں ہے وہ ملک کو برباد کررہے ہیں'۔