آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں کم از کم دس نشستوں پر الیکشن لڑنے کی تیاریاں پہلے ہی شروع کرلی ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی اس ریاست میں مسلم اقلیت کے ووٹ بینک کی پولرائزیشن اور گروہ بندی کا مسئلہ ایک بار پھر اپنا سر ابھارنے لگا ہے۔ اس صورتحال کو مزید تقویت اُس وقت ملی جب ایک اور مسلم مذہبی لیڈر عباس صدیقی نے اپنی تنظیم ’انڈین سیکولر فرنٹ‘ قائم کرکے میدان میں جھونک دی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ مل کر وہ کئی لوگوں، خاص طور سے حکمران ترنمول کانگریس سے جڑے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
اقلیتوں کو ایک ووٹ بینک کے بطور تصور کرنا بنگال کی سیاست کی ایک دیرینہ روایت رہی ہے اور یہ سوچ صرف انتخابات کے موقعے پر ہی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے بلکہ اس کی جھلکیاں ممتا بینرجی کے پوسٹرز اور بینرز میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور اُن کے رویہ سے بھی اس سوچ کی عکاسی ہوتی رہتی ہے۔ یہ بینرز اور پوسٹرز مخصوص مذہبی طبقوں کی رسومات اور تہواروں کے مواقع پر منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ اس صورتحال کے ضمن میں ترنمول کانگریس حکومت کی جانب سے ائمہ مساجد اور موذنین کے ماہانہ وظیفہ فراہم کرنے کی منظوری کا فیصلہ ممتا بینرجی کا ایک تازہ اقدام رہا ہے۔
بائیں بازو کے محاذ، جس نے 34 سال تک بنگال میں حکومت کی ہے، بھی مسلم ووٹروں کو رُجھانے کی اس سیاسی دوڈ میں پیچھے نہیں ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کے پاس انتخابات کے مواقعوں پر مسلم اقلیت سے استفادہ حاصل کرنے کے اپنے کچھ الگ ہی حربے ہیں۔ امداد کی فراہمی، مدرسہ بورڈ کی ادارہ سازی اور مسلم سٹیڈیز کےلئے ایک یونیورسٹی کے قیام جیسے اقدامات کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ کمونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم) نے اپنے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں عندیہ دیا تھا کہ وہ سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کو دس فیصد ریزرویشن دے گی۔ تاہم وہ اسے روبہ عمل نہیں لا سکی کیونکہ اس کے بعد وہ اقتدار سے باہر ہوگئی۔ انتخابات میں مسلم رائے دہندگان کے ایک کلیدی کردار کے پیشن نظر کوئی بھی پارٹی اُنہیں نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ تاہم بی جے پی نے سال 2019ء کے عام انتخابات میں اس معاملے میں ایک مختلف طریقے سے نمٹ لیا۔
بنگال کے انتخابات میں رائے دہندگان کی پولرائزیشن کبھی اتنی عیاں نہیں رہی ہے، جتنی یہ پچھلے لوک سبھا انتخابات میں دیکھنے کو ملی۔ سال 2001ء اور 2006ء کے انتخابات میں بی جے پی حاشیئے پر کھڑی تھی۔ تاہم اس پارٹی نے سال 1998،1999 اور 2004ء کے عام انتخابات میں ترنمول کانگریس کے جونیئر ساتھی رہی۔ لیکن جب جہاں تک اسمبلی انتخابات کا تعلق ہے، ممتا کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ 2011ء کے اسمبلی انتخابات، جن میں ممتا نے بالآخر بائیں بازو کے محاذ کو شکست سے دوچار کردیا، میں بھی اُنہوں نے بی جےپی کے بجائے کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو محض 4.1 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
سال 2016ء میں ممتا نے اکیلے الیکشن لڑا اور بائیں بازو، بشمول کانگریس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے مقابلے میں فتح حاصل کرلی۔ بی جے پی کو بنگال میں لگ بھگ دس فیصد ووٹ شیئر حاصل ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں دیکھنے کو ملی جب جبکہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی قیادت میں بی جے پی مرکز میں حکومت قائم کرچکی تھی۔ لیکن سال 2019ء کے عام انتخابات میں بی جی پی مغربی بنگال میں چالیس فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کلیدی اپوزیشن کے بطور اُبھر کر سامنے آگئی۔ کیا بی جے پی کی اس کامیابی کا سبب پارٹی موجودہ پہنچان کا نتیجہ ہے۔ یا پھر بائیں بازو کے حامی رائے دہندگان، جو مجموعی رائے دہندگان کا 27 فیصد تھے، کا گھٹ کر 7.5 فیصد رہ جانا بی جے پی کے عروج کی وجہ بن گئی۔ یاپھر کانگریس اور ترنمول کے ووٹ شیئر میں بالترتیب 7 اور 2فیصد کے تنزل کا فائدہ بی جے پی کو ملا؟