سہارنپور: ریاست اترپردیش کے دیوبند علاقے کے عیدگاہ میدان میں منعقد جمعیة علماء ہند کے اجلاس کے دوسرے روز تجویز پیش کرنے کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوگیا، اختتامی پروگرام سے گیان واپی اور متھرا عید گاہ سمیت مذہبی عبادت گاہوں کے متعلق حافظ عبیداللہ نے تجویز پیش کی اور قدیم عبادت گاہوں سے چھیڑ چھاڑ ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ قرار دیا Conference of Jamiat Ulema-e-Hind in Deoband۔
جمعیة کے اجلاس میں پیش کی گئی گیان واپی اور متھرا عید گاہ سے متعلق تجویز جمعیة علماء ہند کے صوبائی صدر حافظ عبیداللہ President of Jamiat Ulema-e-Hind Hafiz Obaidullah نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمعیة علماء ہند کا یہ اجلاس قدیم عبادت گاہوں کے تنازعات کو بار بار اٹھا کر ملک کے امن و امان کو خراب کرنے والی طاقتوں اور ان کے پس پشت سیاسی مفاد رکھنے والی جماعتوں کے رو سے سخت نفرت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ گیان واپی مسجد، متھرا عید گاہ اور دیگر مساجد ان دنوں اسی منافرتی مہم کی زد میں ہیں، جس کا حتمی نتیجہ ملک کے امن و امان اور اس کے وقار و سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ جمیعتہ علمائے ہند کے پروگرام میں مولانا ارشد مدنی ایودھیا تنازع کی وجہ سے پہلے ہی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن و امان کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اب ان تنازعا ت نے مزید محاذ آرائی اور اکثریتی غلبہ کی منفی سیاست کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔حالانکہ پرانے تنازعات کو زندہ رکھنے اور تاریخ کی مزعومہ زیادتیوں اور غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرنے سے ملک کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا، اِس سلسلے میں بنارس کی ذیلی عدالت نے تفرقہ انگیز سیاست کو مدد فراہم کی ہے اور عبادت گاہ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کو صریح طریقے سے نظر انداز کیا ہے، جس کے تحت یہ طے ہو چکا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس حیثیت پر قائم تھیں، اُسی پر قائم رہے گی۔ نیز بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو نظر انداز کیا ہے، جس میں دیگر عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق اس ایکٹ کا خاص طور سے تذکرہ کیا گیا تھا۔
جمیعتہ علمائے ہند کے پروگرام میں مولانا بدرالدین اجمل قاسمی جمعیة علماء ہند ارباب اقتدار کو متوجہ کرتی ہے کہ تاریخ کے اختلافات کو زندہ کرنا ملک کے امن و امان کے لیے ہرگز مناسب نہیں ہے۔ خود سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے فیصلے میں عبادت گاہ ایکٹ 1991 کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اصل روح بتایا ہے، جس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اور مذہبی گروہوں کو اس معاملے میں گڑے مرد اکھاڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تب ہی جاکر آئین کے ساتھ کئے گئے عہد کی پاسداری ہوگی، ورنہ آئین کے ساتھ بہت بڑی بدعہدی کہلائے گی۔
جمیعتہ علمائے ہند کے پروگرام میں علمائے کرام
مزید پڑھیں:
اس سے قبل جسلے سے مولانا سلمان بجنوری کے ذریعے پیش کردہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اِس وقت ہمارا ملک، ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، ایک طرف کچھ طاقتیں مسلمانوں کو جو ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت ہیں، خوف زدہ یا مایوس کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں کچھ لوگوں میں جذباتیت یا خوف کی نفسیات پیدا ہورہی ہے۔ Declaration Issued by Jamiat Ulema-e-Hind۔ جمیت علمائے ہند کے صدر محمود مدنی، مولانا ارشد مدنی، بدرالدین اجمل رکن پارلمیان، دارالعلوم کے مہتمم ابوالقاسم نعمانی، دارالعلوم دیوبند وقف کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی، دلشاد ہاشمی، مولانا سلمان بجنوری سمیت دیگر علمائے