اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

Pegasus Spyware: اسرائیلی اسپائی ویئر سے صحافیوں اور سیاستدانوں کی جاسوسی کا انکشاف

عالمی میڈیا کی ایک انجمن کے ذریعہ کی جانے والی تحقیقات سے یہ ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیل میں مقیم جاسوسی ادارے این ایس او گروپ کی ملٹری گریڈ مالوئیر صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی اختلافات رکھنے والوں کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

Pegasus Spyware: اسرائیلی اسپائی وئیر سے صحافیوں کی جاسوسی کا انکشاف
Pegasus Spyware: اسرائیلی اسپائی وئیر سے صحافیوں کی جاسوسی کا انکشاف

By

Published : Jul 19, 2021, 10:12 AM IST

Updated : Jul 19, 2021, 1:29 PM IST

عالمی میڈیا کے ایک کنسورشیم ( انجمن) کے ذریعہ لیک ہوئی ڈیٹا پر مبنی ایک تحقیقات سے یہ ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیل میں مقیم بدنام زمانہ کمپنی این ایس او گروپ کی تیار کردہ ملٹری گریڈ مالوئیر کا صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی اختلافات رکھنے والوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

پیرس میں مقیم صحافت کی غیر منافع بخش تنظیم فوربیڈن اسٹوریز، انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشل اور 16 نیوز آرگنائزیشن نے مشترکہ طور پر یہ تحقیقات کی ہے۔ انہوں نے 50 ہزار سے زائد صحافیوں کے موبائل فون کی فہرست میں سے 50 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد کی شناخت کی ہے، جن پر مبینہ طور پر این ایس او کے ذریعہ نگرانی رکھی جارہی تھی۔

اس انجمن کے ایک رکن واشنگنڈ پوسٹ کے مطابق ان میں 189 صحافی، 600 سے زائد سیاستداں اور سرکاری اہلکار، کم از کم 65 بزنس ایگزیکوٹیو، 85 انسانی حقوق کے کارکنان اور متعدد اسٹیٹ ہیڈ شامل ہیں، جن صحافیوں پر نگرانی رکھی جارہی ہے وہ ایسوسی ایٹڈ پریس ، رائٹرز ، سی این این ، وال اسٹریٹ جرنل ، لی مونڈے اور فنانشل ٹائمز سمیت تنظیموں کے لئے کام کرتے ہیں۔

ایمنسٹی نے یہ بھی جانکاری دی ہے کہ ان کے فرانزک محققین نے اس بات کی بھی تحقیق کی ہے کہ این ایس او گروپ کی پیگاسس اسپائی وئیر کو واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کی موت کے چار دن کے بعد ان کی منگیتر ہاتیس سینگز کے فون پر انسٹال کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ این ایس او پر پہلے بھی خاشقجی کی جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

این ایس او گروپ نے اے پی کے سوالات کا ای میل کے ذریعہ جواب دیتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس نے کبھی بھی ' ماضی یا موجودہ ٹارگیٹ کی ایک فہرست' تیار کی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اسے اپنے صارفین کے ڈیٹا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

وہیں، ایک الگ بیان میں این ایس او نے فوربیڈن اسٹوریز کے رپورٹ کو 'فرضی کہانیوں اور غیر مصدقہ تھیوری (بیانیے) سے بھرا ہوا قرار دیا تھا'۔

این ایس او گروپ کا دعوی ہے کہ ان کے تیار کردہ اسپائی ویئرز کے لائسنس صرف سنجیدہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کو جاری کیے جاتے ہیں۔این ایس او کے ان دعوؤں کے برعکس ناقدین نے ان دعوؤں کو غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پیگاسس اسپائی ویئر کے بار بار غلط استعمال نے نگرانی رکھنے والی نجی کمپنوں کے ضابطے کی خامیوں کو نمایاں کیا ہے۔

وہیں، ان عالمی میڈیا اداروں نے لیک ہونے والے ذرائع اور اس کی توثیق کیسے کی، اس کے بارے میں انکشاف نہیں کیا ہے۔ اگرچہ ڈیٹا میں کسی فون نمبر کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی موبائل کو ہیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن کنسوریشم کا کہنا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ ڈیٹا این ایس او کے سرکاری صارفین کے ممکمنہ ٹارگیٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے بتایا کہ اس نے اس فہرست میں شامل ہیک ہوئے 37 موبائل فون کی نشاندہی کی ہے۔ کنسورشیم کے ایک اور رکن دا گارڈین نے بتایا کہ ایمنسٹی کو 15 صحافیوں کے سیل فون سے پیگاسس کے ہونے کے ثبوت ملے ہیں، جنہوں نے لیک ہوئے ڈیٹا میں اپنے فون نمبر کو دیکھنے کے بعد جانچ کے لیے اپنے فون دیے تھے۔

اس فہرست میں سب سے زیادہ 15 ہزار میکسن فونز نمبر کے ہیک ہونے کی بات سامنے آئی ہے، جن کا مشرقی وسطی میں سب سے بڑا حصہ ہے۔ این ایس او گروپ کے اسپائی ویئر کو مشرقی وسطی اور میکسیکو کے صارفین کی جاسوسی کے لیے خاص طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اطلاع کے مطابق این ایس او کے ایک اور صارفین میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ اس فہرست میں فرانس، ہنگری، ہندوستان، آزربائیجان، قازقستان اور پاکستان کے بھی فون نمبر شامل تھے۔

ایمنسٹی کے مطابق ان نمبر کی نشاندہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحافیوں کو نشانہ بنایا جار ہا ہے، جو واضح کرتا ہے کہ کس طرح تنقیدی میڈیا کو ڈرانے کے لیے پیگاسس کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کا مقصد عوام کے مسائل کو نہ دکھانا اور حکومت مخالف آواز کو دبانا ہے۔

اے پی کے میڈیا ریلیشن کے ڈائریکٹر لارین ایسٹن نے کہا کہ کمپنی کو یہ جان کر بہت پریشانی ہوئی کہ پیگاسس کی اس فہرست میں دو اے پی کے صحافی سمیت متعدد نیوز آرگنائزیشن کے صحافی بھی شامل ہیں۔

Last Updated : Jul 19, 2021, 1:29 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details