معروف مبلغ اور اسلامک دعوۃ سینٹر کے چیئرمین عمر گوتم کو یو پی اے ٹی ایس نے گزشتہ دنوں گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ مفتی قاضی جہانگیر کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
ان دونوں پر یو پی اے ٹی ایس نے جبراً مذہب تبدیل کرانے کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں اور اب انھیں سات دنوں کی پولیس تحویل میں بھی دینے کا حکم صادر کیا جا چکا ہے۔
یو پی اے ٹی ایس نے مزید کہا کہ مذہب تبدیل کرنے کا ریکٹ جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس کے دفتر آئی ڈی سی (اسلامی دعوۃ سینٹر) سے چلایا جا رہا ہے جس کے چیئرمین عمر گوتم ہیں اور وہ بٹلہ ہاؤس کے علاقے میں K-47 عمارت کی چوتھی منزل پر رہتے ہیں۔
عمر گوتم کی گرفتاری کے بعد ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے جامعہ نگر میں واقع اسلامی دعوۃ سینٹر کے قریبی نوح مسجد کا دورہ کر کے امام اور مقامی لوگوں سے عمر گوتم کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
نوح مسجد کے امام مولانا شہزاد نے عمر گوتم پر لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں 20 برسوں سے امامت کر رہے ہیں اور عمر گوتم مسجد سے متصل مکان میں ہی رہتے ہیں اور مسلسل نوح مسجد میں نماز ادا کرتے تھے، اس دوران کبھی بھی ان کی جانب ان سرگرمیوں کو نہیں دیکھا گیا جو ان پر الزام لگائے گئے ہیں اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی فنڈنگ حاصل کرنے کی بات سامنے آئی۔
انہوں نے کہا کہ عمر گوتم انتہائی نیک دل اور ملنسار انسان ہیں، انہوں نے کبھی کسی کا زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا۔ وہ حق کی بات بتاتے ہیں، جنہیں اسلام کی تعلیمات اچھی لگتی تھی وہ اسلام قبول کرتے تھے، لیکن انہوں نے کبھی کسی کو زبردستی اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا۔
مولانا شہزاد نے بتایا کہ میڈیا جس طرح سے عمر گوتم کے بارے میں رپورٹنگ کر رہا ہے وہ ایک سماج کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچائی جانے بغیر خبریں گڑھی جارہی ہیں اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔
انھوں نے اس گرفتاری کو آئندہ برس 2022 میں ہونے والے یوپی اسمبلی انتخابات کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک پروپگنڈا کے طور پر کیا جارہا ہے تاکہ انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔
پارلیمنٹ مسجد کے امام و خطیب مولانا محب اللہ ندوی نے بتایا کہ ’’میں عمر گوتم صاحب کو ذاتی طور پر جانتا ہوں وہ خود مذہب اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے تھے اور وہ جو کچھ بھی کیا کرتے تھے وہ سب کچھ قانون کے دائرے میں رہ کر کیا کرتے تھے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’عمر گوتم نے جب اسلام قبول کیا تب ان کی عمر محض 21 برس تھی تب سے وہ تبلیغ کا کام سر انجام دے رہے ہیں اپنے 30 سالہ طویل عرصے کے دوران ان کے خلاف ایک بھی ایسی شکایت سامنے نہیں آئی جس میں ان کے خلاف یہ الزام لگا ہو کہ انہوں نے کسی کو جبراً یا لالچ دے کر اسلام قبول کروایا ہو۔‘‘