دنیا بھر میں جہاں ایک طرف بنت حوا کو یکساں حقوق فراہم کرنے کی آواز بلند ہو رہی ہے وہیں خواتین مخالف جرائم بھی آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے گھناؤنے اور انسانیت سوز واقعات Horrible and Inhumane Incidents of Throwing Acid on Women بھی جاری ہیں۔
Outrage Over Acid Attack on Woman یکم فروری کی شام شہر سرینگر کے پائین علاقے حول کی عثمانی کالونی وانٹہ پورہ کی 24 سالہ لڑکی پر نفرت انگیز ذہانت اور منفی سوچ کے حامل ایک لڑکے نے تیزاب سے حملہ Acid Attack کردیا، جس کے نتیجے میں لڑکی کا چہرہ بری طرح سے جھلس گیا اور آنکھوں کے کارنیا Eye Cornea کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ ایسے میں ڈاکٹر ابھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ متاثرہ دوبارہ دیکھ پائی گی یا نہیں۔ ایس ایم ایچ اہسپتال سرینگر میں زیر علاج جواں سال لڑکی اس وقت درد و کرب میں مبتلا ہے۔
یہ منگل کی شام اس وقت پیش آیا جب متاثرہ لڑکی جو کہ خاندان کی واحد ذریعہ معاش ہے کام کرکے اپنے گھر لوٹ رہی تھی۔
انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس واقعے نے ہر کشمیری کے ضمیر کو جنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔
واقعہ کے خلاف ہر طرف اور ہر گوشے سے یہ صدائے بلند کی جارہی ہیں کہ ملزم کو عبرت ناک سزا ملنی چائیے۔
اس بیچ سرینگر پولیس شاباشی کی مستحق ہے، جس نے معاملے کے فورا بعد ایک ایس آئی ٹی تشکیل دےکر چند گھنٹوں کے اندر ہی کلیدی ملزم سجاد الطاف کو گرفتار کرلیا۔مزید تفتیش کے بعد ساجد کے مزید دو ساتھوں کی بھی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔جن میں سے ایک موٹر مکینک ہے۔
اس جرم کے پیچھے کے وجوہات یہ بتائے جارہے ہیں کہ متاثرہ لڑکی نے مرکزی ملزم کی منگنی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
ایسے میں ہر ایک ذی شعور انسان سکتے میں ہے اور سوال کر رہا ہے کہ متاثرہ لڑکی کا قصور کیا تھا؟ جس پر ملزم نے ایسی گھناؤنی حرکت انجام دے ڈالی۔
کشمیر میں لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے جیسے گھناؤنے جرائم کے بڑھتے رجحان نے ہر کشمیری کو فکر و تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں:
قومی خاندانی بہبود اور محکمے صحت کے سروے رپوٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں سال 2020_21 کے دوران خواتین کے تئیں تشدد کے معاملات میں 7 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔
اگرچہ وادی کشمیر میں تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش نہیں آتے تھے، لیکن گذشتہ برسوں کے دوران اب ایسے خطرناک معاملات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
تیزاب پھینکنے کا حالیہ واقع کشمیر میں پہلا نہیں ہے، ماضی میں ابھی ایسے چند معاملات رونما ہوچکے ہیں۔