نئی دہلی: نیتا جی سبھاش چندر بوس کی پر پوتی راج شری چودھری بوس نے کرتویہ پتھ پر نیتا جی کے مجسمے کی نقاب کشائی کا خیرمقدم کیا حالانکہ انھوں نے یہ بھی کہا اس کام میں 75 سال لگ گئے۔ تاہم، یہ قابل ستائش خراج تحسین ہے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بھارت کو ہندوستانی جدوجہد آزادی میں نیتا جی کی زندگی اور ان کے تعاون کو دستاویز کرنا چاہئے۔ Netaji statue at Kartavya Path انٹرویو کے اقتباسات:
سوال: نیتا جی سبھاش چندر بوس کے مجسمے کی نقاب کشائی پر آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: بھارتی حکومت کو آزادی کے لیے دہلی چلو کا نعرہ دینے والے شخص کا مجسمہ نصب کرنے میں 75 سال لگ گئے۔ پھر بھی کم از کم اس حکومت نے یہ کام کیا ہے۔ اس حکومت نے نیتا جی کو ایک اعلیٰ مقام پر رکھا ہے، وہیں جہاں کبھی برطانوی بادشاہ جارج پنجم کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔حکومت ہند نے بھی آج ثابت کر دیا کہ سبھاس چندر بوس ایک قومی ہیرو تھے، اس پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔
سوال: کیا آپ کو سابقہ حکومتوں سے شکایت ہے کہ بھارت میں نیتا جی کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے؟
جواب: شکایت تو بہت ہے، لیکن فی الحال ہماری امید یہی ہے کہ دنیا بھر میں نیتا جی کی زندگی سے متعلق تمام فائلیں طلب کی جائیں اور بھارت کی آزادی میں ان کے تعاون کو اسکول کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس کی بہادری اور شجاعت کو بھی تاریخ میں صحیح مقام ملنا چاہیے۔ اس کے لیے روس، جاپان، ویتنام، امریکہ، موزمبیق، انگلینڈ، جرمنی، فرانس، اٹلی، منگولیا، تائیوان، بنگلہ دیش سبھی سے بات کرنے کے بعد نیتا جی سے متعلق فائلیں حکومت ہند کو طلب کرنے چاہیے۔
سوال: سیاسی پارٹیوں کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت نیتا جی کا مجسمہ لگا کر بنگالیوں کے جذبات کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
جواب: نیتا جی متحدہ بھارت کے سربراہ تھے، انھیں بنگالی کہہ کر لوگ انھیں محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ غلط ہے۔ اگر گاندھی جی گجرات میں پیدا ہوکر صرف گجراتی نہیں ہیں بلکہ فادر آف نیشن ہیں، اور نیتا جی بنگال میں بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ کٹک، اڈیشہ میں پیدا ہوئے۔ ہاں ان کی مادری زبان بنگالی تھی۔ تو وہ قومی ہیرو کیوں نہیں بن سکتے؟ ان کے مجسمے کے تئیں بنگالی جذبات کے بارے میں بات کرنا معمولی بات کرنے جیسا ہے۔
سوال: ممتا بنرجی نے اس پروگرام میں نہیں شرکت کیں کیونکہ مرکزی حکومت کی جانب سے ایک انڈر سکریٹری کی طرف سے دعوت نامہ بھیجا گیا ہے، جو پروٹوکول کے مطابق درست نہیں ہے۔
جواب: ممتا بنرجی کو مدعو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ممتا بنرجی بھی جشن کمیٹی کی رکن ہیں اور یہ پروگرام جشن کمیٹی ہی منعقد کرا رہی ہے۔ ممتا بنرجی کسی بھی اچھے کام کی مخالفت کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ وہ تو خود کوئی اچھا کام نہیں کرتی ہیں۔ نیتا جی کے مجسمے کی نقاب کشائی کے دوران معمولی شکایت بھی ہو تو اسے نظر انداز کر کے اس مشن کی تعریف کی جانی چاہیے اور حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔
نیتا جی کا مجسمہ اگر کسی پارک میں یہاں اور وہاں رکھا جاتا تو شاید اتنی اہمیت نہ ہوتی لیکن یہ مجسمہ اسی جگہ نصب کیا گیا ہے جہاں برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کا مجسمہ انگریزوں نے نصب کیا تھا۔ مطلب برطانوی راج کا تختہ الٹ دیا اور برطانوی شہنشاہ کی جگہ ہمارے دلوں کے شہنشاہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کا مجسمہ لگا دیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔
سوال: آپ نے کچھ سال پہلے گوالیار میں ناتھورام گوڈسے کی پوجا بھی کی تھی، اس معاملے میں کافی تنازعہ ہوا تھا۔
جواب: یقیناً ایسا ہوا، کیونکہ اس وقت ہمارے آباؤ اجداد تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ گاندھی جی کے دور میں تقسیم ہوئی۔گاندھی جی نے نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ یہ بھی کہا کہ پاکستان جو کچھ مانگ رہا ہے وہ دے دو۔اس کے لیے انھوں نے بھارتی حکومت پر دباؤ بھی ڈالا۔ بنگال اور پنجاب کی عورتوں پر ہونے والے مظالم کی داستان گاندھی جی تک نہیں پہنچی۔ اس سے ناراض ہو کر گوڈسے نے انھیں گولی مار دی اس کے بعد کوئی انھیں ہسپتال نہیں لے گیا۔ تاہم وہ اس گولی سے نہیں مرے۔ میرا الزام ہے کہ کسی نے انھیں پیچھے سے گولی ماری جو گوڈسے کے ریوالور سے باہر نہیں نکلی تھی۔ تو وہ تیسری گولی کس کے ریوالور سے نکلی اس کا پتہ لگانا اس وقت کی نہرو حکومت کی ذمہ داری تھی۔