دہلی کے جنتر منتر پر لداخ کی عوام کا احتجاج، ریاستی درجہ کا مطالبہ نئی دہلی: لیہہ ایپکس باڈی (ایل اے بی) اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے)، لداخ کی ٹریڈ یونینوں، سماجی، سیاسی اور مذہبی گروپوں کے ایک اتحاد نے بدھ کو نئی دہلی کے جنتر منتر پر آئین کے تحت ریاست کا درجہ دینے، چھٹے شیڈول کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ ان کے مطالبے میں مقامی لداخیوں کے لیے ملازمت میں ریزرویشن، لداخ کے لیے ایک علیحدہ پبلک سروس کمیشن، اور مرکز میں ان کی نمائندگی کے لیے لیہہ اور کارگل کے لیے دو پارلیمانی نشستیں شامل ہیں۔
کرگل ڈیموکریٹک الائنس کے کارکن نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ آج قومی دارالحکومت دہلی میں اپنے چار مطالبات لیکر آئے ہیں ان مطالبات میں سب سے پہلا مطالبہ لداخ کو مکمل ریاستی درجہ دینے کا ہے تاکہ لداخ میں رہنے والے افراد کو ترجیحات میں شامل کیا جا سکے اور لداخ کو جب تک ریاست کا درجہ نہیں ملے گا تب تک لداخ میں رہنے والے افراد کی مشکلیں آسان نہیں ہو پائیں گی کیونکہ لداخ ایک منفرد نوعیت کا علاقہ جہاں کی تہذیب و ثقافت سبھی سے مختلف ہے۔
کرگل سے اس احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے آئے فیروز نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ہائی پاور کمیٹی کی تشکیل دی گئی ہے اس کمیٹی سے ہماری میٹنگ بھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک انہوں نے ہم سے ایجنڈے سے متعلق کوئی بات نہیں کی ہے۔ لہ ایپکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس کا کہنا ہے کہ آپ میٹنگ ان چار مطالبات پر بات کرنے کے لیے بلائیں تو ہم بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دہلی کے جنتر منتر پر لداخ کی عوام کا احتجاج، ریاستی درجہ کا مطالبہ جنتر منتر سے خطاب کرتے ہوئے، ماہر تعلیم اور میگسیسے ایوارڈ یافتہ سونم وانگچک، جنہوں نے حال ہی میں لداخ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے پانچ روزہ بھوک پڑتال کیا تھا، نے کہا کہ چھٹے شیڈول کے بارے میں بات کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ جب اگست 2019 میں مرکزی حکومت نے ہمیں ایک یونین ٹیریٹری میں تبدیل کیا تو ہم نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا اور اس سے ہمیں امید ملی لیکن تب سے یہ خوشی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے۔
سونم وانگچگ نے کہا کہ لداخ میں ہمارے نوجوان کے لیے روزگار کم ہو گئے ہیں کیونکہ وہاں مواقع کی کمی ہے۔ میری بنیادی تشویش ہمیشہ سے ماحولیاتی تحفظ، ماحولیات، گلیشیئرز اور پہاڑوں کا تحفظ رہی ہے لیکن اب ایک اور چیز شامل ہو گئی ہے اور وہ جمہوریت کا تحفظ ہے۔ جب ہمیں مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا گیا تھا تو ہم خوش تھے کیونکہ ہم سے ایک مقننہ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ہمیں جو کچھ ملا وہ بغیر مقننہ کے یو ٹی تھا۔
احتجاج میں حصہ لینے والوں میں ایل اے بی، کے ڈی اے کے اہلکار، لداخ کے مقامی لوگ، اور لداخی کے طلباء بھی شامل تھے جو دہلی میں پڑھ رہے تھے جو 'بیوروکریسی سے آزاد لداخ' اور 'لداخ جمہوریت کا مطالبہ کرتا ہے' کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ وانگچک نے کہا کہ دنیا ہندوستان کو صرف ایک سیکولر ملک نہیں بلکہ ایک ایسی جگہ کے طور پر دیکھتی ہے جہاں تنوع کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اسے منایا جاتا ہے، عزت دی جاتی ہے اور اس سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔
دہلی کے جنتر منتر پر لداخ کی عوام کا احتجاج، ریاستی درجہ کا مطالبہ مرکزی حکومت پر طنز کستے ہوئے، انہوں نے کہا "ہم کافی عرصے سے اس پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری آواز حکومت تک نہیں پہنچ رہی ہے، اس لیے ہم اپنے آواز سنانے کے لیے لداخ سے پارلیمنٹ کے قریب دارالحکومت دہلی آئے ہیں اور ہمیں یقین ہے اور امید ہے کہ حکومت ہمیں آئین کے تحت ریاست کا درجہ اور چھٹا شیڈول دے گی۔
وانگچک نے کہا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ لداخ کو اتنی چھوٹی جگہ اور چھوٹی آبادی ہونے کے باعث ریاست کا درجہ کیوں درکار ہے؟ تو مجھے انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ سکم جو کہ ایک بہت چھوٹی ریاست بھی ہے، کو ریاست کا درجہ حاصل ہے، تو لداخ کو کیوں نہیں مل سکتا؟ جب کہ لداخ ایک انتہائی حساس خطہ ہے تو اسے خصوصی تحفظ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سالوں سے کوئی نوکری کی پوسٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ حکومت نے 12000 نوکریوں کا وعدہ کیا تھا لیکن 400 سے زیادہ نہیں دیا گیا۔ زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں۔
بعد میں انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مختلف ممالک کے لوگوں نے مجھے ایوارڈ دیا لیکن بھارت نے آپ کو ابھی تک ایوارڈ کیوں نہیں دیا، میں ان کو کہتا ہوں کہ مجھے ایوارڈ دیا گیا ہے لیکن ایف آئی آر اور انکوائری کی شکل میں اور مجھے ایک دن ایوارڈ ملے گا خواہ وہ میری موت کے بعد مجھے مل جائے۔اور مجھے امید اور یقین ہے کہ پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں لداخ کا مسئلہ اٹھایا جائے گا۔
دہلی کے جنتر منتر پر لداخ کی عوام کا احتجاج، ریاستی درجہ کا مطالبہ قابل زکر ہے کہ 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا - ایک جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ، جہان بودھ اکثریتی لیہہ کے لوگوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا اور اس اقدام کو خود مختاری کے اپنے دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے کی طرف ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا، وہیں کارگل کے مسلم اکثریتی علاقے نے اس اقدام کی مخالفت کی۔ اور اس کے خلاف احتجاج کیا۔
لداخ میں شدید احتجاجی مظاہروں کا مشاہدہ کرنے کے بعد، وزارت داخلہ نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن اگلے مہینے، LAB اور KDA دونوں نے کمیٹی کے ساتھ کسی بھی بات چیت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ اس جاری احتجاج کے درمیان، حکومت نے اتوار کو مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ کے لیے ایک نیا لیفٹیننٹ گورنر مقرر کیا۔ بھارتی فوج کے سابق بریگیڈیئر اور اروناچل پردیش کے موجودہ گورنر بی ڈی مشرا کو لداخ کا ایل جی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب لیفٹیننٹ گورنر رادھا کرشنا ماتھر ہفتہ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔