بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر سورو کمل دتہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'خیبر میں حالیہ واقعہ کچھ اور نہیں بلکہ پاکستانی برادری کی طرف سے یہ ایک اور بربریت اور غنڈہ گردی دکھائی گئی ہے۔ یہ ہجوم پُرتشدد تھا جس کا آغاز طالبان عناصر اور شدت پسند تنظیموں نے کیا تھا۔ پاکستان کے سیاسی میدان کو آج طالبانی عناصر اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے طور پر حکمرانی کی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'عمران خان شرپسندوں اور عسکریت پسند قوتوں کے ہاتھوں میں صرف ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ پاک فوج، آئی ایس آئی اور فرقہ پرست سیاسی رہنما عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر اس طرح کی قابل مذمت سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں اقلیتی طبقے چاہے وہ 'ہندو، سکھ یا جین ہی کیوں نہ ہو، ساتھ ہی پارسیوں کا قلع قمع ہو رہا ہے۔'
فی الحال پاکستان میں ہندو برادری کی کل آبادی تقریباً 2 فیصد ہے۔ پاکستان نے 1947 میں آزادی حاصل کی جس کے دوران ہندو برادری کی آبادی تقریباً 23 فیصد تھی، آج یہ کم ہوکر 2 فیصد رہ گئی ہے۔ بقیہ ہندو آبادی کہاں چلی گئی؟ پاکستان میں منظم 'نسلی صفائی' یقیناً ہورہی ہے۔ جہاں سے اقلیتیں بھارت اور دنیا کے دیگر حصوں میں ہجرت کر رہی ہیں۔ دتہ کی وضاحت کے مطابق پاکستان میں جبراً تبدیلیٔ مذہب کثرت سے ہوتا رہتا ہے۔ جہاں تعصب نے اپنا ڈیرا دال رکھا ہے اور خیبر پختونخوا میں مندر پر حملہ اس کا تازہ ثبوت ہے جو ایک افسوسناک واقعہ ہے۔
بھارتی حکومت کو پاکستان کو سخت انتباہ دینا چاہئے کہ اس قسم کی سرگرمیاں برداشت نہیں کی جائیں گی اور اگر پاکستان میں اقلیتی برادری کو مزید غیر مستحکم اور محکوم کیا جاتا ہے تو بھارت کو اقلیتی برادریوں پر ظلم وستم روکنے کے لئے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی۔