مسٹر یادو نے سنیچر کے روز یواین آئی سے کہا کہ ایم ایس پی کے نام پر اس ملک میں گزشتہ 50 سال سے دھوکہ ہو رہا ہے اور آگے بھی کسانوں کے ساتھ دھوکہ کیا جاتا رہے گا۔ حکومت کو اس ایم ایس پی کے سسٹم کو یا تو قانونی شکل دینی چاہئے یا اسے ختم کر دینا چاہئے۔
ایم ایس پی کا تعین کر نے والا کمیشن فار ایگریکلچر کاسٹ اینڈ پرائزز سرکاری ادارہ تو ہے، لیکن اسے آئینی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اس لئے اس کی سفارشات پر عمل کرنا حکومت کے لیے لازمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم ایس پی کا التزام صرف کاغذات تک ہی محدود ہے اور زمینی سطح پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
منڈیوں میں کسانوں کی حالت زار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کسان فصل منڈی میں لے کر جاتا ہے تو اسے کسی نہ کسی بہانے ایم ایس پی کی برابر قیمت ادا نہیں کی جاتی اور اس کی فصل کی بولی ایم ایس پی کے نیچے پر ہی لگائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں تقریبا 14 کروڑ کسان ہیں، لیکن موجودہ ایم ایس پی کا فائدہ بمشکل دس سے 15 فیصد کسانوں کو ہی ملتا ہے اور جس میں بیشتر بڑے کسان شامل ہیں۔
یادو نے کہا کہ ایم ایس پی کے لئے بھی حق تعلیم کی طرز پر پارلیمنٹ میں ایک قانون بنایا جانا چاہئے، جس کا اطلاق پورے ملک میں کیا جا ئے۔ پورے ملک میں فصل کی قیمت ایم ایس پی کی بنیاد پر طے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں ایم ایس پی نافذ کرنا لازمی ہو جائے گا اور چھوٹے اور بڑے دونوں کسانوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔