رواں پنچایت انتخابات میں نہ صرف ضلع گیا بلکہ ریاست بہار میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک خواجہ سرا نے بلامقابلہ وارڈ ممبر کے عہدے پر جیت درج کی ہے۔
معاشرے میں امتیازی سلوک اور حقارت کی نگاہ کا تیسری جنس شکار ہوتی ہے۔ خاص طور پر امتیازی سلوک کا معاملہ گاؤں دیہات میں زیادہ ہوتا ہے۔ گاؤں دیہات میں آج بھی نام نہاد مہذب معاشرہ " so called civilized society" تھرڈ جینڈر کو معاشرے میں برابری کا درجہ دینا تو دور ان سے صحیح طریقے سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے نازیبا تبصرے اور الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
ایک خواجہ سرا کرےگا سات سو لوگوں کی نمائندگی تاہم ریاست بہار کے ضلع گیا کے کیسرو دھرم پور پنچایت کے وارڈ نمبر 5 کے باشندوں نے ایک بہترین مثال پیش کی ہے اور اپنے وارڈ و پنچایت کے ترقیاتی منصوبوں و سماجی کاموں کو کروانے کی ذمہ داری ایک خواجہ سرا کے ہاتھوں میں سونپی ہے۔ ایک خواجہ سرا کو اپنا رہنما منتخب کرکے نفرت و تفریق کرنے والوں پر جمہوری نظام کی منھ پر خوبصورتی سے طمانچہ رسید کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
دراصل پنچایت الیکشن میں خواجہ سرا مینو کماری نے گیا کے نگر بلاک چندوتی کے کیسرو دھرم پور کے وارڈ نمبر 5 سے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے جب نامزدگی کا پرچہ داخل کیا تو ان کے مقابلے میں ایک خاتون امیدوار تھی۔ نامزدگی کے کاغذات کی جانچ ہونے کے بعد دونوں امیدواروں کے کاغذات الیکشن کمیشن کی طرف سے درست قرار دیے گئے تاہم اسی دوران وارڈ نمبر پانچ کے سبھی باشندوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا، جس میں مینو کماری کے خلاف کھڑی دوسری امیدوار بھی شامل تھیں کہ مینو کماری کو بلا مقابلہ وارڈ ممبر منتخب کردیا جائے۔ خواجہ سرا مینو کماری کے خلاف کھڑی دوسرے امیدوار نے امیدواری سے اپنا نام واپس لینے کا فارم بلاک میں جمع کردیا جس کے بعد مینو کماری بلا مقابلہ وارڈ ممبر منتخب ہوگئی ہیں۔
بلا مقابلہ جیت درج کرنے کے بعد میں مینو نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سماجی رسومات، شادی اور پیدائش کی تقریبات میں رقص و گیت سنگیت کے ذریعے مبارک باد اور دعائیں پیش کرنے والی تیسری جنس کو باشندوں نے دعا اور اعزاز سے نوازا ہے۔ انہوں نے کہا معاشرے میں تھرڈ جینڈر کے ساتھ امتیازی سلوک تو ہوتے ہیں تاہم انکے پنچایت میں کسی طرح کا امتیازی سلوک کا معاملہ انکے ساتھ کبھی نہیں رہا ہے.بچپن سے ہی گاوں کا لوگوں کا پیار ملا ہے ضرورتوں پر ہم لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ سبھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بغیر روک ٹوک کے امیر و غریب کے گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں جو ذمہ داری سونپی گئی ہے اسکو ہر حال میں ادا کریں گے۔ معاشرے نے تبدیلی کا بھروسہ کرتے ہوئے جیت سے ہمکنار کیا ہے تو جو ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں وہ پہلی ترجیحات میں شامل ہے، اسے ہر حال میں کریں گے۔
گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ سماجی کاموں میں مینو 'کننر' پیش پیش ہوتی ہیں۔ گھروں میں شادی سماجی تقریب میں وہ " بدھائیاں" گاتی ہیں، تو ان سے لوگوں کا جڑاو تھا۔ لوگ ان کے کردار سے متاثر ہیں۔ ان کا کنبہ نہیں ہے کہ وہ ترقیاتی کاموں میں لوٹ کھسوٹ کریں گی۔ گاؤں میں نل جل منصوبے کے تحت کام نہیں ہوئے ہیں۔ پہاڑی علاقہ ہے تو یہاں پانی کی قلت ہے۔ ان سب کاموں کو کرانے کی ذمہ داری مینو 'کننر' پر ہے کیونکہ وارڈ ممبر کا ایک بڑا عہدہ ہے کیونکہ بہار کے گاؤں میں وارڈ ممبر کی سطح پر ہی وارڈ میں کام ہونگے۔
700 لوگوں کی نمائندگی کا ذمہ ہے
کیسرو دھرم پور پنچایت کے جگرناتھ پور گاؤں وارڈ نمبر پانچ میں ہے۔ یہاں سات سو ووٹرز ہیں جبکہ تھرڈ جینڈر ووٹرز کی تعداد ایک ہے اور وہ مینو 'کننر' ہیں۔ پورے پنچایت میں 77سو کی آبادی ہے۔ اس میں قریب شیڈول کاسٹ کی آبادی نصف ہے جبکہ دو ہزار مسلم ووٹرز اور تیسرے نمبر پر آبادی یادو برادری کی ہے۔
مینو کننر نے گیا کے پنچایت الیکشن میں تاریخ رقم کی ہے۔ پہلی مرتبہ گیا میں کسی خواجہ سرا نے پنچایت الیکشن میں جیت حاصل کی ہے اور وہ بھی بلامقابلہ انکی جیت ہوئی ہے۔ مینو کننر جگرناتھ پور کی ہی باشندہ ہیں اور وہ رام لکھن مانجھی و رکمنی دیوی کی اولاد ہیں۔
واضح رہے کہ ضلع گیا میں پنچایت الیکشن دس مرحلے میں ہونے ہیں، چھ مرحلے کی ووٹنگ ہوچکی ہے اور پانچ مرحلے کی کاؤنٹنگ ہوچکی ہے۔ چھٹے مرحلے کی کاؤنٹنگ 13 نومبر کو ہوگی۔ کیسرو دھرم پور پنچایت نگر بلاک چندوتی میں آتا ہے، جہاں نویں مرحلے میں 29 نومبر کو ووٹنگ ہونی ہے لیکن مینو کننر کا کوئی دوسرا فریق نہیں ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے ضابطے کے مطابق وہ جیت درج کرچکی ہیں اور انہیں جیت کا سرٹیفکیٹ دیا جاچکا ہے۔