ضلع گیا میں سنہ 2016 سے جون 2020 تک وزیر اعلیٰ اقلیتی روزگار قرض کے لیے پندرہ سو سے زائد درخواستیں جمع ہوئیں، جن میں قرض کے لیے سخت شرائط پر کھرے اترنے والے 195 افراد کے نام منتخب کر کے کاغذات کی جانچ و اقرار نامہ کی کاپی پر دستخط کرا کر رقم دی گئی ہے۔ 2020 تک ساڑھے تین کروڑ روپے ہی تقسیم ہوئے جبکہ سنہ 2017 سے ضلع گیا کے لیے ہر مالی سال ڈھائی کروڑ روپے مختص ہوتے ہیں گویا کہ تین برسوں میں قریب ساڑھے سات کروڑ روپے ضلع گیا کے لیے مختص ہوئے لیکن مالیاتی کارپوریشن کے زونل انچارج دھرمیش کمار کے مطابق ضلع گیا میں سنہ 2016 سے جون 2020 تک 195 افراد میں قریب ساڑھے تین کروڑ روپے کا قرض تقسیم ہوا ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس اسکیم کے لیے پھر ڈھنڈورا کیوں پیٹا جاتا ہے؟ اول تو یہ کہ کسی بھی مالی برس میں رقم کی ادائیگی نہیں ہوتی ہے اور جب فارم بھرنے کے دو مہینے کے اندر ضلع سے جانچ کر اقلیتی مالیاتی کارپوریشن پٹنہ کو فائل بھیج دی جاتی ہے تو اسکے باوجود قرض کی رقم دینے میں تاخیر کیوں ہوتی ہے؟ اقلیتی روزگار قرض اسکیم ایک ایسی اسکیم ہے جو حکومت میں رہنے والے سبھی رہنماؤں کی طرف سے یہ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار اقلیتی طبقے کی اقتصادی ترقی کے لیے کوشاں ہیں اور حکومت کی طرف سے روزگار کے لیے قرض پر رقم دی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
گیا : پنچایت انتخابات میں دو بڑے عہدے پر ایک بھی مسلم امیدوار کو جیت نہیں ملی
دیکھا جائے تو محکمہ اقلیتی فلاح کے پاس اس سے بڑی کوئی اسکیم نہیں ہے۔ باوجود کہ قرض لینے والوں کو دفتروں کے چکر کاٹ کر چپلیں توڑنی پڑتی ہیں۔