ستندر کور جو اس اسکول کی پرنسپل تھیں سرینگر کے آلوچی باغ کی رہنی والی تھیں جبکہ دیپک چند جموں کے جانی پور کے رہائشی تھے۔
سرینگر میں ہلاکتوں سے خوف تاری یہ ہلاکتیں اس وقت پیش آئیں جب اساتذہ اسکول کے صحن میں بیٹھے تھے کہ ایک کار سے کچھ مسلح افراد اترے اور اساتذہ کی شناخت پوچھنے کے بعد ان دو اساتذہ پر گولیاں چلا کر انکو ہلاک کر دیا۔
اس اسکول میں تعینات ایک استاد جو ان ہلاکتوں کے عینی شاہدین میں سے ایک ہیں، انہوں نے کہا کہ بندوق برداروں نے صحن میں ہی دونوں اساتذہ پر گولیاں چلا دیں۔
جب ستندر کور کی میت ان کے رہائش پر لائی گئی تو وہاں ماتم چھا گیا۔ وادی کے سکھ برادری کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں بھی ان کا قتل کیا تو اکثریت آبادی نے ان کا ساتھ دے کر ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کام کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
ان ہلاکتوں کے بعد شہر میں ایسے واقعات کا پیش آنا سیکورٹی فورسز کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ایک غیر معروف عسکری تنظیم 'دی ریزسٹنس فرنٹ' نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری لی ہے۔
جموں و کشمیر پولیس سربراہ دلباغ سنگھ جائے وقوع پر پہنچے اور افسران کے ساتھ حادثے کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اس معاملے میں کہا کہ یہ عسکریت پسند پاکستان کے اشارے پر کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں سے جاری ہلاکتیں پولیس پر ایک سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔
اپنی پارٹی کے یوتھ صدر اور شہر کے میئر جنید متو نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ایل جی منوج سنہا ان واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں گے۔
گذشتہ ہفتے سے وادی میں سات شہریوں کو ہلاک کیا گیا ہے، جن میں چار اقلیتی آبادی کے افراد شامل ہیں۔