مرکزی حکومت نے جمعرات کے روز احتجاج کرنے والے کسانوں کو رکی ہوئی بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لئے ایک تجویز روانہ کیا اور ان سے نئے زرعی قوانین پر تعطل کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی سہولت کے مطابق تاریخ طے کرنے کو کہا۔
کسانوں کے احتجاج کا آج 30واں دن ہے، لیکن کسان دہلی کی سرحدوں پر زرعی قونین کی واپسی کے لیے بضد ہیں مرکزی حکومت نے جمعرات کے روز احتجاج کرنے والے کسانوں کو رکے ہوئے مذاکرات پر دوبارہ بات چیت شروع کرنے لیے ایک تجویز بھیجی اور ان سے نئے زرعی قوانین پر تعطل کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنی سہولت کے مطابق تاریخ طے کرنے کو کہا۔ تاہم مشتعل کسانوں کی تنظیموں نے الزام لگایا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے نیا خط کسانوں کے بارے میں ایک پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ وہ مذاکرات پر راضی نہیں ہیں۔ اسی دوران کسان تنظیموں نے حکومت سے بات چیت کی بحالی کے لیے تینوں نئے زرعی قوانین کی منسوخی کو ایجنڈے میں شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے مطالبے پر سنجیدہ نہیں ہے۔
توقع ہے کہ متحدہ کسان مورچہ جمعہ کو مرکز کے خط پر تبادلہ خیال کرے گا اور اس کا باضابطہ جواب دے گا۔ گزشتہ 30 دنوں سے 40 کسان تنظیمیں دہلی کے تین داخلی مقامات سنگھو، ٹکری اور غازی پور سرحد پر اس محاذ کے بینر تلے مظاہرہ کر رہی ہیں۔ وزارت زراعت نے ایک نئی تجویز بھیجنے کے ساتھ ہی واضح کیا ہے کہ ایجنڈا میں کم سے کم سپورٹ قیمت سے متعلق کسی بھی نئے مطالبے کو شامل کرنا 'منطقی' نہیں ہوگا کیونکہ یہ نئے زرعی قوانین کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ تاہم یونینوں کا کہنا تھا کہ متنازعہ قوانین کو منسوخ کرنے کے مطالبے سے ایم ایس پی کو الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایم ایس پی کو قانونی ضمانت دینا ان کی تحریک کا ایک اہم نکتہ ہے۔ وزارت نے کہا کہ وہ احتجاج کرنے والے کسانوں کے مسائل کا کوئی منطقی حل تلاش کرنے کے لیے تیار ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی جمعہ کے روز ایک بٹن دباکر نو کروڑ سے زائد مستفید کسان خاندانوں کے کھاتوں میں 18 ہزار کروڑ روپے منتقل کریں گے۔ یہ رقم وزیر اعظم کسان سمن نیدھی (وزیر اعظم-کسان) کے تحت مالی فائدہ کی اگلی قسط کے طور پر جاری کی جائے گی۔