کیا حجاب مسلمان عورتوں کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہے؟ تعمیر و ترقی میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے والی جنوبی ریاست کرناٹک میں اسی ایشو پر چند ماہ قبل مسلم طالبات کو نشانہ بنانے کی مہم شروع ہوئی جو تعلیمی اداروں سے نکل کر عدالت کے دروازوں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گئی۔ Did hijab cause barrier in women success
دراصل رواں سال کے آغاز میں ضلع اڈوپی میں واقع ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں مسلم طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ سامنے آیا تھا، جہاں باحجاب طالبات کو کلاسز میں بیٹھنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہاں ڈریس کوڈ نافذ ہے جس پر عمل کرنا تمام طلبا کے لیے لازمی ہے۔ وہیں طالبات کا یہ کہنا تھا کہ جس طرح دیگر طالبات اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ کلاسز میں آتی ہیں، اسی طرح حجاب پہن کر آنا ان کا بھی آئینی حق ہے۔
کرناٹک سے اٹھنے والا حجاب کا معاملہ آہستہ آہستہ ملک کی دیگر ریاستوں میں پھیلنے لگا اور متعدد مقامات سے ایسی خبریں آنے لگیں کہ باحجاب مسلم طالبات کے ساتھ کالجز اور اسکولوں میں امتیازی سلوک کیا جانے لگا۔ ملک کے کئی کالجز میں حجاب کے پہننے پر مسلم طالبات کو امتحان ہال میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ وہیں دوسری جانب ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ دہلی، اترپردیش، حیدرآباد، گجرات اور جموں و کشمیر سمیت دیگر ریاستوں میں مسلم خواتین اور ملی تنظیموں نے حجاب کو آئینی حق قرار دیتے ہوئے کرناٹک حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔
اس معاملہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ کالج ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ تعلیم اور حجاب میں سے کسی ایک کو منتخب کریں اور بھارتی رہنماوں کو مسلم خواتین کو پسماندگی میں ڈھکیلنے سے روکنا چاہیے۔ مس یونیورس ہرناز سندھو نے ایک انٹرویو کے دوران حجاب سے متعلق سوال پوچھے جانے پر حجاب کے حق میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ حجاب پہننے والی لڑکی کو اس کی مرضی اور ڈھنگ کے مطابق زندگی گزارنے دی جائے۔ اسے اس مقام پر پہنچنے دیا جائے، جہاں وہ پہنچنا چاہتی ہے۔ بالی ووڈ کی سابق اداکاری اور جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی زائرہ وسیم نے حجاب معاملہ پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم خواتین کے خلاف تعصب کو فروغ دینا اور ایسا نظام قائم کرنا، جہاں انہیں تعلیم اور حجاب کے درمیان کسی ایک کو منتخب کرنا ہے یا پھر انہیں چھوڑنا ہے، سراسر نا انصافی ہے۔
اس دوران کرناٹک میں حجاب معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرنے لگا تھا۔ اس معاملہ میں بی جے پی کی ریاستی حکومت نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ کلاسز میں یونیفارم پہننا لازمی ہے، حجاب پہن کر کسی بھی طالبہ کو کلاس رومز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ بڑھتا گیا اور باحجاب طالبات احتجاج کرنے لگیں کہ انہیں حجاب کے ساتھ کلاس رومز میں بیٹھے کی اجازت دی جائے۔ اس دوران کچھ شرپسند طلبہ بھی بھگوا شال اور بھگوا مفلر کے ساتھ باحجاب طالبات کی مخالفت کرنے لگے جس کے بعد معاملہ مزید بگڑتا چلا گیا۔ اس دوران دو ویڈیو کافی وائرل ہوئے۔ ایک ویڈیو میں ایک کالج میں طلبا کے ایک گروپ نے کالج میں بھگوا جھنڈا لہرایا جب کہ دوسری ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ریاست کے منڈیا کے پی ای ایس کالج میں ایک باحجاب طالبہ جیسے ہی کالج پہنچی، سینکڑوں بھگوا شر پسندوں کا گروپ اس کی جانب دوڑ پڑا اور جے شری رام کے نعرے لگانے لگا جس کے جواب میں باحجاب طالبہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔
کرناٹک حجاب معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے باحجاب طالبات نے عدالت کا رخ کیا، جہاں کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا اور کہا کہ یہ اسلام کا لازمی جز نہیں ہے، جس کے بعد یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حجاب پر پابندی سے حکومت کی منشا کیا ہے؟ کیا واقعی حجاب مسلم خواتین کی تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کیا حجاب اور پردے نے مسلم خواتین کو معاشرہ میں پیچھے دھکیل دیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے چند مثالیں پیش کرنا لازمی ہے۔
بشرا متین:
گذشتہ دنوں کرناٹک کی ایک باحجاب طالبہ بشرہ متین کافی سرخیوں میں رہی ہیں۔ ضلع رائچور کے ایک درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے انجینئر ظہیر الدین کی بیٹی بشریٰ متین نے وی ٹی یو وِشویشَوریا ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی Vishweshwarya Technological University سے 16 گولڈ میڈلس حاصل کیے اور یونیورسٹی کے پچھلے تمام رکارڈ توڑ دیے۔ بشریٰ متین ایک باحجاب طالبہ ہیں اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ حجاب اور پردہ تعلیم میں بالکل رکاوٹ نہیں ہے بلکہ محنت اور لگن سے سب کچھ ممکن ہے۔
لامیا مجید:
اسی ریاست سے تعلق رکھنے والی ایک اور باحجاب طالبہ نے تعلیمی محاذ میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ضلع منگلور سے تعلق رکھنے والی لامیا مجید نے میسور یونیورسٹی کے 102ویں کانووکیشن میں ایم ایس بوٹانی میں سات گولڈ میڈلس اور دو نقد انعامات حاصل کیے۔ لامیا مجید کی اس کامیابی نے ان تمام لوگوں کی زبانیں بند کردیں جو حجاب پر سوال کھڑا کر رہے تھے۔
الہام: