عدالت شرجیل امام کی ضمانتی عرضی پر 15 نومبر کو فیصلہ سنائے گی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے دونوں فریقین کے استغاثہ اور امام کے وکیل کو سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ امام نے یہ کہہ کر بھیڑ کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے کہ "عوامی غصے کو نتیجہ خیز انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے"۔ شرجیل امام پر 13 دسمبر 2019 کو قومی دارالحکومت کے جامعہ علاقے میں اور 16 دسمبر 2019 کو اتر پردیش کے علی گڑھ کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا الزام ہے۔
امام دسمبر 2019 میں اپنے وائرل ویڈیو کی وجہ سے سرخیوں میں آئے۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہروں سے متعلق مختلف مقدمات میں امام پر ملزم کے طور پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
امام کے خلاف تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
- مزید پڑھیں:شرجیل امام کی گرفتاری کا ایک برس مکمل
دراصل 16 جنوری کو اے ایم یو میں عوامی تقریر کے دوران کی ایک وائرل ویڈیو میں شرجیل امام کو متنازع تقریر کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ امام پر الزام ہے کہ انہوں نے شمال مشرقی بھارت کے رابطے کو باقی بھارت سے منقطع کرنے کی بات کی تھی۔ ویڈیو کے مطابق شرجیل امام نے سلی گوڑی کوریڈور یا چکن نیک علاقے میں چکہ جام کرنےکی بات کہی تھی۔
وہیں دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک کے ابتدائی مرحلے میں شرجیل امام اس کے منتظمین میں شامل رہے ہیں۔
شرجیل امام پر مجرمانہ سازش رچنے، مذہب کی بنیاد پر عوام کے درمیان منافرت کو فروغ دینے سمیت متعدد الزامات عائد ہیں۔ یو اے پی اے سمیت متعدد دفعات کے تحت ان کے خلاف مقدمہ درج ہے۔ مزید دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی میں 24 فروری کو متنازع شہریت ترمیمی قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان ہوئے پرتشدد تصادم اور فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں بھی شرجیل امام کو ملزم بنایا ہے۔
دہلی فسادات کیس پر سماعت کرتے ہوئے 5 جنوری 2021 کو دہلی کی کڑکڑ ڈوما کورٹ نے سبھی ملزمین کو عدالتی تحویل میں دوبارہ بھیج دیا۔