سرینگر (نیوز ڈیسک) :سماجی رابطہ گاہوں پر کمنٹس / پوسٹس یا بینک اکاؤنٹ کے لین دین پر ہونے والی چیٹس کی بنیاد پر متعدد بھارتی طلبہ کے امریکی ویزا فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور مطلوبہ تعلیمی ادارے میں سیٹ یا ویزا ملنے کی خوش میں جھوم رہے طلبہ کو امیگریشن حکام کی جانب سے سخت جھٹکا دئے جانے کے باعث طلبہ مایوس ہو رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ چند دنوں میں تقریباً 500 بھارتیوں کو واپس بھیجا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اگست اور ستمبر سے شروع ہونے والے موسم خزاں دوران (امریکہ) جانے والے طلبہ کے والدین کافی پریشان ہیں۔ ماہرین اور امریکی قونصل خانے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ویزا تعلیم مکمل ہونے تک امریکا میں رہنے کا سرٹیفکیٹ نہیں ہے اور اگر طلبہ کی جانب سے جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ غلط پائے گئے تو کسی بھی وقت کارروائی ہو سکتی ہے، یعنی امریکہ میں مقیم بھارتیوں کو اس صورت میں واپس ملک روانہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ انگریزی میں جواب نہیں دے سکتے تو۔۔۔
ہوائی اڈوں پر اترنے والے طلباء کے F-1 ویزا اور بورڈنگ پاس امیگریشن حکام کے ذریعے چیک کیے جائیں گے۔ اسے ’’پورٹ آف انٹری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سبھی مسافرین سے نہیں تاہم بیشتر طلباء سے سوالات پوچھے جائیں گے جیسے کہ ’’ آپ کس یونیورسٹی میں شامل ہونے جا رہے ہیں؟ کون سا کورس جوائن کرنا ہے؟ آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ امریکن قونصلیٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح کے آسان سوالات کا کچھ طلباء انگریزی میں صحیح جواب نہیں دے پاتے۔ جن لوگوں کو واپس بھیجا جاتا ہے ان میں سے نصف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انگریزی کا بنیادی علم نہیں رکھتے۔ اگر وہ انگریزی میں جواب نہیں دے سکتے تو کہتے ہیں کہ GRE اور TOEFL سکور پر غور کیا جائے گا۔
’’تمام امیگریشن حکام سے پوچھ گچھ اور جانچ کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ ان میں سے کچھ کو کمروں میں بٹھا کر ان کے فون اور لیپ ٹاپ چیک کرتے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ ان کے سرٹیفکیٹ اصلی ہیں یا نہیں، وہ دھمکی آمیز انداز میں پوچھتے ہیں۔ ’کیا یہ جعلی ہیں؟‘ اگر وہ سچائی کا اعتراف کرتے ہیں، تو وہ انہیں واپس بھیج دیں گے، بصورت دیگر وہ انہیں جیل کی دھمکیاں بھی دیں گے۔‘‘ ان باتوں کا اظہار کیلیفورنیا میں ایم ایس کے چوتھے سمسٹر میں زیر تعلیم ایک تیلگو طالب علم نے کیا۔
اگر ایسی چیٹ اور پوسٹس ہوں تو۔۔۔
واٹس ایپ چیٹس، فیس بک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پر پوسٹس اور ای میلز اب سینکڑوں طالب علموں کے لیے امریکہ میں داخل ہونے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ امیگریشن حکام سوشل میڈیا پر پوسٹس اور چیٹس کو دیکھتے ہیں تاکہ جس پر انہیں شبہ ہو اس کی پوچھ گچھ کی جا سکے۔ مثال کے طور پر، ’’کیا میں پہلے دن سے پارٹ ٹائم جاب کر سکتا ہوں؟ بینک اکاؤنٹ میں فیس کے لیے درکار رقم کیسے دکھائیں؟ اس کے لیے کنسلٹنسی کو کتنی ادائیگی کرنی چاہیے؟‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دوستوں سے ایسی باتوں کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو واپس بھیجنا یقینی ہے۔ نفرت انگیز پوسٹس کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔