اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

لکھنؤ: خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کے بدلتے ناموں پر خصوصی رپورٹ - لکھنؤ کی اہم خبر

یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری نے بتایا کہ یونیورسٹی کے قیام کا بنیادی مقصد اردو عربی فارسی اور اس کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینا تھا۔جس کے لیے قانون بھی بنایا گیا اور اردو عربی فارسی میں سے کسی ایک زبان کو لازم قرار دیا گیا تھا کہ سبھی طالب علم اساتذہ کو ان تینوں زبانوں میں سے ایک زبان کا جاننا ضروری ہے، یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالب علم کو اردو سے واقفیت ہونے کے سبب ترجیحی طور پر داخلہ بھی دیا جائے گا۔

خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کے بدلتے ناموں پر خصوصی رپورٹ
خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کے بدلتے ناموں پر خصوصی رپورٹ

By

Published : Oct 2, 2021, 4:38 AM IST

Updated : Oct 2, 2021, 12:13 PM IST

خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کے آج 12 برس مکمل ہونے پر یوم تاسیس منایا گیا۔ ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں یونیورسٹی کے پہلے و سابق وائس چانسلر انیس انصاری نے بتایا کہ سنہ 2009 میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے لیے مایاوتی حکومت نے خصوصی ایکٹ بنایاتھا۔

یونیورسٹی ایکٹ میں اردو عربی فارسی زبان اور تہذیب کے فروغ کا واضح طور پر پر ذکر کیا گیا تھا ساتھ ہی اس یونیورسٹی کو یہ بھی اختیارات حاصل ہیں کہ اترپردیش میں جتنے بھی اقلیتی ادارے ہیں اس کو ملحق کیا جائے۔

خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی کے بدلتے ناموں پر خصوصی رپورٹ

انہوں مزید کہا کہ اپنے مدت کار میں طلبا و طالبات اور اساتذہ کو اردو جاننا لازم قرار دیا تھا اور طلباء و طالبات کے نمبرات بھی مارکشیٹ میں شمار کیے جاتے تھے۔

یونیورسٹی کا نام سب سے پہلے سماج وادی پارٹی کے دور اقتدار میں تبدیل کر کاشی رام اور فارسی یونیورسٹی کی جگہ خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی رکھا گیا جب اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت تشکیل ہوئی اس کے بعد خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی کی جگہ خواجہ معین الدین چشتی لنگویج یونیورسٹی رکھا گیا ساتھ میں یونیورسٹی کا لوگو بھی تبدیل کیا گیا جس میں قرآنی آیت یا حدیث لکھا ہوا تھا۔غرض یہ کہ یونیورسٹی اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی۔

یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر انیس انصاری نے بتایا کہ یونیورسٹی کے قیام کا بنیادی مقصد اردو عربی فارسی اور اس کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینا تھا۔جس کے لیے قانون بھی بنایا گیا اور اردو عربی فارسی میں سے کسی ایک زبان کو لازم قرار دیا گیا تھا کہ سبھی طالب علم اساتذہ کو ان تینوں زبانوں میں سے ایک کا جاننا ضروری ہے یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالب علم کو اردو سے واقفیت کے سبب ترجیحی طور پر داخلہ بھی دیا جائے گا۔

سماج وادی پارٹی کے دور اقتدار میں خان مسعود اس کے وائس چانسلر بنائے گئے تو انہوں نے اردو کی لازمیت کو ختم کر دیا اور یہ کہا کہ طلبا و طالبات کے اردو عربی یا فارسی کے نمبرات شمار نہیں کئے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'یونیورسٹی کا سب سے زیادہ نقصان تیسرے وائس چانسلر ماہ رخ مرزا نے کیا، انصاری کے مطابق ماہ رخ مرزا نے خان مسعود کی روایت کر برقرار رکھتے ہوئے اردو عربی فارسی کی لازمیت کو ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹیو کونسل سے ایک قرار داد منظور کروائی اس کے بعد یونیورسٹی کے نام سے اردو عربی فارسی کو ہٹادیا پھر لوگو بھی تبدیلی کردیا گیا۔

انیس انصاری مانتے ہیں کہ اردو عربی فارسی نام ہونے سے عوام میں یہ پیغام جاتا تھا کہ اس زبان کی فروغ کے لیے یہ یونیورسٹی خاص ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نام سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے، تاہم تعلیمی نظام اردو عربی فارسی میں ہی جاری رہنا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ نام تو بدل دیے گئے لیکن جو قانون اردو عربی فارسی کے فروغ کے لئے 2009 میں بنائے گئے تھے وہ ایک ابھی بھی موجود ہے اس میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اس حوالے سے جب اترپردیش کے کابینی وزیر برائے قانون برج پاٹھک سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے غور و فکر کیا جائے گا اگر کوئی مشورہ آتا ہے تو ضرور قدم اٹھایا جائے گا۔

جبکہ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر انل کمار شکلا لینگویج یونیورسٹی ہونے کی وکالت کرتے ہیں ان کے مطابق یونیورسٹی کسی خاص زبان کے لیے محدود نہیں ہوگی یہاں پر متعدد زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حالیہ دنوں میں گورنر کی جانب سے ایک ہدایت نامہ یہ بھی موصول ہوا ہے کہ دنیا کی سبھی زبان کی تعلیم دی جائے جس سے اس کا دائرہ مزید وسیع ہوگا اور طلبا و طالبات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔

سابق وائس چانسلر ماہ رخ مرزا کا کہنا ہے کہ جب یونیورسٹی کا نام اردو عربی فارسی ہٹاکر لینگویج کیا گیا تو اس وقت موجودہ گورنر آنندی بین پٹیل نے طلبا و اساتذہ سے پوچھا تھا تھا کہ یونیورسٹی کا نام مکمل ہے اگر مکمل نہیں ہے تو اس کو 'بھاشا' یونیورسٹی کا نام دیا جائے جس پر سبھی نے رضامندی ظاہر کی تھی۔

مرزا بتاتے ہیں کہ اسی رضامندی کو دلیل بنا کے ہم نے یونیورسٹی کا نام لینگویج یونیورسٹی کردیا جس کے بعد طلبا و طالبات کی داخلے میں اضافہ ہوا ہے پہلے اردو عربی فارسی نام جڑا ہونے کی وجہ سے لوگ اسے مدرسہ تصور کرتے تھے لیکن نام بدل جانے سے مدرسہ کی صورت جو عوام کی نظر میں تھی اس میں تبدیلی آئی ہے۔

مزید پڑھیں:بی جے پی مجھ سے ڈرتی ہے : کنہیا کمار

مرزا کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنارس میں موجود سمپوڑا نند سنسکرت یونیورسٹی کا نام بھی بدلا جائے گا حکومت اس پر بھی غور کرے گی کیونکہ اس کے نام کی وجہ سے اس پیمانے پر داخلہ نہیں ہو پاتا ہے جیسا ہونا چاہیے۔

Last Updated : Oct 2, 2021, 12:13 PM IST

For All Latest Updates

TAGGED:

ABOUT THE AUTHOR

...view details