کلکتہ ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمن سے سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے حالیہ اس تجویز کو واپس لیے جانے کی درخواست کی ہے جس میں سپریم کورٹ میں پریکٹِس کرنے والے وکلاء کو ہائی کورٹ کے جج کے بطور ترقی دیے جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
کلکتہ ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن نے متعلقہ تجویز کو آئین کے معیار کے خلاف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تقرری کے عمل کی آزادی میں دخل اندازی ہے اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لیے متعین قانون کے خلاف ہے۔
تمام ہائی کورٹ کی اپنا آزاد تقرری کا طریقہ کار ہوتا ہے اور متعلقہ ہائی کورٹ کے کالیجیم کی جانب سے امیدواروں کے ذاتی طو پر تجزیہ کی بنیاد پر تقرری کی جاتی ہے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر سینیئر وکیل وکاس سنگھ نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر سپریم کورٹ کے وکلاء کو ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ترقی دینے کے لیے غور و خوض کرنے کی درخواست دہرائی تھی۔
مسٹر سنگھ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں پریکٹِس کرنے والے وکلاء کے پاس دیوانی، مجرمانہ، آئینی، کمرشیل قانون وغیرہ سے متعلق ہر طرح کے مسائل سے نمٹنے کا وسیع اور اعلیٰ تجربہ ہے لیکن ہائی کورٹ کالیجیم کی جانب سے شاید ہی کبھی ان پر غور و خوض کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ہائی کورٹ کے سامنے بہ ضابطہ پریکٹس نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن چیف جسٹس کو وکلاء کی ایک فہرست سونپ سکتی ہے جو اسے ہائی کورٹ کالیجیم کو بھیجا جا سکتا ہے۔
یو این آئی