ایودھیا معاملہ، یعنی 'بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کیس' دنیا کے سب سے زیادہ حساس اور سرخیوں میں رہنے والا ایک ایسا معاملہ، جسے تمام تر کوششوں کے باوجود آج تک نہیں سلجھایا جا سکا تھا، آخر کار 9 نومبر سنہ 2019 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا ہے۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متنازع زمین رام للا کو دیا جائے گا، اور مسلم فریق کو ایودھیا ہی میں دوسرے مقام پر 5 ایکڑ کی زمین دی جائے گی، جہاں وہ ایک مسجد کی تعمیر کر سکیں گے۔
خصوصی رپورٹ: ایودھیا معاملے کی پوری کہانی اس فیصلے کے بعد آئیے سمجھتے ہیں کہ ایودھیا کا پوا معاملہ کیا تھا؟ در اصل بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع فیض آباد میں فیض آباد شہر سے تقریبا 7 کلو میٹر مشرق میں واقع ایک شہر کا نام ایودھیا ہے۔ یہیں پر سنہ 1528 میں مغل شہنشاہ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے ایک مسجد کی تعمیر کرائی تھی، جسے 'بابری مسجد' کا نام دیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا میر باقی نے مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر کرائی تھی یا کسی عام جگہ پر مسجد کی تعمیر ہوئی تھی۔
در اصل پورا تنازع اسی بات پر منحصر ہے۔ ہندو فریق کا ماننا ہے کہ مسجد کی تعمیر یہاں پہلے سے ہی موجود ایک مندر کو توڑ کر کی گئی تھی، جبکہ مسلم فریق کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے کسی بھی مندر کو نہیں توڑا گیا تھا۔
معاملے کی شروعات سنہ 1853 سے ہوتی ہے۔ اس سے قبل بابری مسجد میں مسلمان نماز پڑھتے، اور مسجد کے باہر دروازے کے بائیں جانب ایک چبوترہ تھا، جہاں ہندو پوجا کرتے تھے، اس چبوتے کو 'رام چبوترہ' کہا جاتا ہے۔
سنہ 1853 میں پہلی بار فساد کے سبب مسجد اور چبوترے کے درمیان ایک احاطہ تعمیر کیا گیا، تاکہ مسجد میں مسلمان اور چبوترے پر ہندو اپنی اپنی عبادات کر سکیں۔
یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن سنہ 1885 میں چبوتے کے پجاری مہنت رگھوبر داس نے فیض آباد عدالت میں ایک عرضی داخل کر کے چبوترے پر با قائدہ مندر کی تعمیر کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن عدالت نے مندر کی تعمیر کو خارج کر دیا۔
سنہ 1949 میں 22 اور 23 دسمبر کی رات بابری مسجد میں کچھ نامعلوم افراد نے مورتیاں رکھ کر صبح اعلان کر دیا کہ رام للا پرکٹ ہو گئے ہیں۔ خیال رہے کہ 'رام للا' رام کے بچپن کے روپ کو کہا جاتا ہے۔
متنازع جگہ کی تصویر سمجھیئے اس واقعے کے بعد مقامی مسلم باشندوں نے ضلع انتظامیہ سے شکایت کرکے مورتی ہٹانے کی درخواست کی، لیکن ضلع مجسٹریٹ کے کے نائر نے یہ کہ کر مورتی ہٹانے سے انکار کر دیا کہ فی الحال مورتی ہٹانے سے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ضلع انتظامیہ نے اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے کر کسی کو بھی داخل ہونے سے روک دیا۔
سنہ 1992 سے قبل کی تصویر، جب سیکوریٹی کے سخت انتظامات تھے سنہ 1950 میں رام چبوترے کے پجاری رام چندر داس اور ایک دوسرے شخص گوپال سنگھ بشارد نے مسجد کے اندر مورتی کی جگہ پر عدالت سے پوجا کی اجازت طلب کی، لیکن عدالت نے اس مطالبے کو خارج کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا۔
سنہ 1959 میں بھارت کے 14 اکھاڑوں میں سے ایک نرموہی اکھاڑا نامی تنظیم نے رام کے عقیدت مند کے ہونے کے ناطے اس زمین کے مالکانہ حق کا دعوی کر دیا۔ اس طرح یہاں سے زمین کو متنازع ڈھانچہ کہا جانے لگا۔
سنہ 1961 میں 'سنی وقف بورڈ' نے بھی عدالت کا دروزہ کھٹکھٹایا اور مورتیاں ہٹانے کے ساتھ ہی متنازع زمین کو اسے سونپنے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح تین دعویداروں نے اپنی اپنی دعویداری پیش کر دی، اور معاملہ عدالت میں چلتا رہا۔
یہ معاملہ اس وقت قومی سیاست کا حصہ بننا شروع ہوا، جب سنہ 1984 میں ہندو تنظیم ' وی ایچ پی' نے ایک دھرم سنسد بلایا، جس میں ہندو سادھو سنتوں نے قومی سطح پر رام مندر کی تعمیر کا شور بلند کرنا شروع کر دیا۔
سنہ 1986 میں فیض آباد عدالت کے حکم کے بعد 36 برس قبل لگائے گئے تالے کو وزیر اعظم راجیو گاندھی نے کھولنے کا حکم دے دیا۔ تالا کھولے جانے کا منظر دور درشن پر لائیو نشر کیا گیا۔ اس کے سبب بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔
اسی دوران 'بابری مسجد ایکشن کمیٹی' کی تشکیل دی گئی، تاکہ سیاسی، سماجی اور قانونی طریقے سے مسئلے کو حل کیا جائے، اور مسجد کو دوبارہ نماز کے لیے بحال کیا جا سکے۔
اسی دوران وی ایچ پی نے 'کار سیوا' یعنی مندر کی تعمیر کی کوشش میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے لیے ہندووں کو یکجا کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی 'شِلا پوجن' کی شروعات ہوئی۔ یعنی ملک بھر کے ہندووں سے اپیل کی گئی کہ مندر کی تعمیر کے لیے اینٹوں کو ایودھیا بھیجا جائے۔
شِلا پوجن کی ایک تصویر، ملک بھر سے شری رام لکھ پر ایودھیا کو اینٹ بھیجتے لوگ سنہ 1989 میں متنازع زمین کے نزدیک ہی 'وی ایچ پی' کی جانب سے 'شِلا نیاس' یعنی سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بابری مسجد کو اسی وقت منہدم کر دیا جائے گا۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ وزیر اعظم راجیو گاندھی نے عام انتخابات کے پیش نظر ہندووں کی نارضگی سے بچنے کے لیے 'شلا نیاس' کی اجازت دی تھی۔
ان سب کے باوجود دسمبر سنہ 1989 میں عام انتخابات کے دوران کانگریس پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اور بی جے پی جو اس سے قبل محض دو سیٹیں ہی جیت سکی تھی، اسے رام مندر کے سہارے 85 سیٹیں مل گئیں۔ اس کے بعد 'راشٹریہ مورچہ' اور بی جے پی دونوں نے مل کر حکومت سازی کی۔ راشٹریہ مورچہ کے رہنما وی پی سنگ کو وزیر اعظم بنایا گیا۔
سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ ستمبر سنہ 1990 میں بی جے پی کے رہنما لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ سے مختلف ریاستوں کے راستے ایودھیا تک 10 ہزار کلو میٹر کا ایک طویل سفر شروع کیا، جسے 'رتھ یاترا' کا نام دیا گیا۔
لال کرشن اڈوانی کی جانب سے شروع کی گئی10 ہزار کلو میٹر کی رتھ یاترہ بالآخر اس رتھ کو بہار کے سمستی پور میں وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے روک دیا اور لال کرشن اڈوانی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی وجہ سے بی جے پی نے وی پی سنگھ سے حمایت واپس لے لی، کیوں کہ لالو یادو بھی مرکزی حکومت کا حصہ تھے۔ اس طرح مرکزی حکومت گر گئی، اور بلیا کے بابو چندر شیکھر کانگریس کی مدد سے وزیر اعظم منتخب کیے گئے، لیکن تقریبا سات ماہ تک چندر شیکھر کی حکومت رہی اور 'راجیو گاندھی جاسوسی' معاملے میں چندر شیکھر کی حکومت بھی گر گئی۔
سابق وزیر اعظم چندر شیکھر اس کے بعد 30 اکتوبر سنہ 1990 میں کارسیوکوں نے ایودھیا میں جمع ہو کر بابری مسجد منہدم کرنے کا ارادہ کیا، لیکن ملائم سنگھ نے پُر تشدد کارسیکوں پر گولی چلانے کا حکم دے دیا، جس کے نتیجے میں متعدد کارسیوک ہلاک ہوئے، اور اس طرح مسجد کو منہدم ہونے سے بچایا جا سکا۔
چندر شیکھر کی حکومت گرنے کے بعد سنہ 1991 میں دوبارہ عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ تبھی راجیو گاندھی نے اپنے انتخابی مہم کی شروعات پہلے سے طے شدہ راجستھان کے بجائے ایودھیا سے کی تھی اور یہیں انہوں نے رام راجیہ لانے کی بات کہی تھی۔ آخر کار اسی انتخابی مہم کے دوران تمل ناڈ کے سری پیرمبدور میں راجیو گاندھی کو قتل کر دیا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل سے چند لمہے پہلے کی تصویر اسی ہمدردی کے سبب 1991 کے انتخابات میں کانگریس کو زبردست کامیابی ملی اور پی وی نرسمہا راو وزیر اعظم بنائے گئے۔ اسی دوران اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات ہوئے، اور بی جی پی کی حکومت بنی اور کلیان سنگھ کو وزیر اعلی بنایا گیا۔
سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو کلیان سنگھ نے متنازع 2 اعشاریہ 77 ایکڑ زمین کو اپنے قبضے میں لے کر 'جنم بھومی نیائے' نامی ٹرسٹ کو دے دیا۔ مختصر یہ کہ سنہ 1992 میں دونوں فریق نے صلح کی کوشش کی، لیکن کوشش ناکام رہی، اسی دوران 'وی ایچ پی' نے دہلی میں ایک دھرم سنسد کی میٹنگ بلائی، اور 6 دسمبر کو کارسیوا کا اعلان کر دیا۔
سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ اس اعلان کے پیش نظر وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو سے صدر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا، لیکن وزیر اعظم نے ایسا نہیں کیا، اور آخر کار 6 دسمبر سنہ 1992 کو بی جے پی کے بڑے رہنماوں کی موجودگی میں ہزاروں کی بھیڑ نے سر عام بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ اور وہاں ایک چھوٹا سا مندر تعمیر کر کے اس میں رام للا کی مورتی رکھ دی گئی۔
مسجد منہدم کرنے کے بعد تعمیر کیا گیا عارضی رام مندر اس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جس میں ہزاروں افراد کی جانیں گئیں۔
سنہ 2003 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا یعنی اے ایس آئی کو متنازع زمین کی کھدائی کا حکم دیا، اے ایس آئی نے کھدائی کے بعد رپورٹ پیش کی، جس میں کھدائی کے دوران کچھ ڈھانچوں کے ملنے کی بات کہی گئی، تاہم رپورٹ میں کسی مندر کے ڈھانچے کی بات نہیں کہی گئی تھی۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے لبراہم کمیشن، اے ایس آئی کی رپورٹ اور تینوں فریق کے بحث اور دلائل سننے بعد سنہ 2010 میں متنازع زمین کو تینوں فریق، رام للا براجمان، نرموہی اکھاڑا اور سنی سنٹرل وقف بورڈ کے درمیان تقسیم کیے جانے کا فیصلہ دیا۔
اس فیصلے میں رام للا کو مسجد کا اندرونی حصہ یعنی مورتی کی جگہ دی گئی، نرموہی اکھاڑے کو رام چبوترہ کے ساتھ سیتا کی رسوئی اور سنی وقف بورڈ کو باقی ماندہ زمین دی گئی تھی۔ لیکن اس فیصلے سے کوئی بھی فریق راضی نہیں تھا، آخر کار معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔
متنازع جگہ کی تصویر سمجھیئے اس طرح تقریبا 9 برس کے بعد 9 نومبر سنہ 2019 کو سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متنازع زمین رام للا کو دی جائے گی، اور ایودھیا میں دوسری جگہ پر 5 ایکڑ زمین مسلمانوں کو دی جائے گی۔اور نرموہی اکھاڑے دعوے کو خارج کر دیا گیا۔
اب دیکھنے والی بات ہو گی کہ اس فیصلے کے بعد یہ معاملہ یہیں ختم ہوتا ہے یا مزید کچھ امکانات تلاش کیے جائیں گے۔