پاکستانی فوج نے 16 جون اتوار کی رات کو اچانک ایک حیران کن اعلان کیا کہ آئی ایس آئی کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا ہے اور لیفٹنٹ جنرل فیض حمید کو اس کا آئی ایس آئی کا ڈائرکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔
حالانکہ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لفٹنٹ جنرل عاصم منیر کو ابھی ڈی جی آئی ایس آئی بنے صرف 8 ماہ کا ہی عرصہ ہوا تھا مگر انہیں جلد ہی اس عہدہ سے ہٹاتے ہوئے پنجاب کارپس کا سربراہ بنادیا گیا ہے۔
ایسا مانا جارہا ہے کہ موجودہ پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ جن کی معیاد کے صرف 4 ماہ باقی بچے ہیں وہ اپنی معیاد میں توسیع چاہتے ہیں اس لئے وہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو جمع کررہے ہیں حالانکہ یہ ابھی ایک قیاس ہے۔ سابق میں پاکستان فوج کے سربراہوں نے جب بھی اپنی معیاد میں توسیع کی تو انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کی معیاد تین برس کی ہوتی ہے۔
آخری مرتبہ سن 2010 میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی معیاد میں توسیع کی گئی تھی انہیں شدید نتقیدوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
جنرل حمید بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت آئی ایس آئی کی داخلی سیکوریٹی کی اندورنی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ فوج کی خفیہ پالیسی کے سبب یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آئی ایس آئی کا سربراہ کیوں تبدیل کیا گیا۔
پہلی مرتبہ جنرل حمید کا نام اس وقت منظرعام پر آیا تھا جب پاکستان کی ایک مذہبی جماعت 'تحریک لبیک پاکستان' نے اسلام آباد کی ایک اہم شاہراہ کو بند کردیا تھا ۔ تحریک کا مطالبہ تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف ان لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے پارلیمنٹ میں حلف لینے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔
رواں سال میں ہونےوالے احتجاجیوں پر جنرل کے رول پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فیض عیسی نے سوال اٹھایا تھا اور فیصلہ صادر کیا تھا کہ جو بھی جنرل اس میں ملوث ہے اس نے فوجی حلف کی خلاف ورزی کی ہے اور اس پر اسے سزا ملنی چاہئے۔
جنرل حمید کا نام دوبارہ اس وقت گردش کرنے لگا جب سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے الزام عائد کیا کہ 2018 کے انتخابات میں ان کی ہار کے پیچھے جنرل حمید کا ہاتھ ہے اور وہ پارٹی کے سابق ممبروں کی وفاداریاں بھی تبدیل کروارہے ہیں۔
جنرل حمید کی تقرری کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس وقت پاکستان کو کئی چیلنجس درپیش ہیں جن میں پشتوں تحفظ مومنٹ کے علاوہ پاکستان کی معاشی صورتحال بھی بہت بری ہے اور اپوزیشن پارٹیوں نے ملک گیر ہڑتال کی دھمکی بھی دی ہے۔