کورونا وائرس کا دھچکہ عالمی معیشت پر ایک شدید چوٹ ہے بلکہ اسے کساد بازاری کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔ یہ ایک ایسا دھچکہ ہے کہ جس کا علاج بھی معیشت کا قاتل ہے کیونکہ دنیا کو گھیر چکی وبا کو قابو کرنے کے لیے سب کچھ بند کرنا (لاک ڈاون) ایک مجبوری ہے۔ بھارت بھی اس مرحلے پر پہنچا ہے کہ جہاں اس نے اپنے ایک ارب 30 کروڑ لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کے لیے کہا ہے تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے اور ان شہریوں کی حفاظت ممکن ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہوائی اور زمینی سفر، تفریح و دیگر کئی سرگرمیوں اور خدمات پر پہلے ہی پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔
کورونا وائرس کا دھچکہ بُرا تو ہے ہی لیکن یہ خصوصی طور پر ایک بُرے وقت میں لگا ہے کیونکہ معیشت پہلے ہی لگاتار تین برس سے سُست روی کا شکار تھی۔ ملک کا مالی نظام کمزور اور خطرے سے دوچار تھا۔ سبھی شعبے بشمول سرکاری، نجی، غیر مالی اور گھریلو، قرضے کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر کاروبار کے بند رہنے کے معاشی اخراجات بہت بھاری اور نا قابلِ تصور ہیں۔ یہ اندازہ لگانا معقول ہے کہ موجودہ حالات،گہرے اثرات رکھنے کے باوجود، عارضی ہیں اور اگر یہ (حالات) فوری طور قابو ہوگئے تو ہماری اس کساد بازاری (ریسیشن) سے، جو ایک مہلک بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکار کی خود پیدا کردہ ہے۔ کامیاب ابھرنے کے بڑے امکانات ہیں لیکن اگر وبا کی مدت لمبی ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ بیشتر سرگرمیاں اور خدمات بند رکھنا پڑیں تو اقتصادی نقصان نہ صرف بہت زیادہ ہوگا بلکہ کچھ نقصان وقتی ہونے کے بجائے دائمی ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ سب نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او)کی ان رپورٹز کے علاوہ ہے کہ جن کے مطابق بھارت میں دو برس قبل بے روزگاری 45 برس میں سب سے زیادہ تھی حالانکہ سرکاری طور ان رپورٹز کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ پریشانیوں کی وجہ سے بے روزگاری کی یہ صورتحال اور زیادہ بدتر ہو جائے گی۔
مختلف صنعتوں، کاروبار اور متعدد خدمات کی بندش اور اس کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کی مانگ میں گراوٹ روزگار کے لیے دہری پریشانی ہے۔ بدقسمتی سے بھارت اس حوالے سے خطرات سے دوچار ہے۔ ملک کے روزگار کا دو پانچواں حصہ غیر رسمی یا بے ضابطہ ہے جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد (مثلاً گھریلو نوکری، یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے وغیرہ) تحریری معاہدوں کے بغیر کام پر ہے۔ خود روزگار کمانے والوں میں کم آمدنی کا کام کرنے والوں (جیسے پھیری والے، پرچون فروش،مرمت کا کام کرنے والے اور دیگر چھوٹی خدمات فراہم کرنے والے)کی خاصی تعداد شامل ہے جبکہ خدمات (سروسز) ملک کی مجموعی پیداوار کا 54 فیصد ہیں۔ اس طرح کے کام پر تالہ بندی کا بھاری اثر ہوتا ہے۔ بالخصوص یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کا انحصار ہی یومیہ اُجرت اور نقدی کے بہاؤ پر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جہاں یہ معاملہ ان لوگوں کے ساتھ بھی ہے کہ جو معاہدے کی بنیاد پر ملازمت کرتے ہیں۔ چناچہ ملک میں بے شمار لوگوں کی ملازمت ایسے کاروباروں کے ساتھ جڑی ہے کہ جو خود بھی فطری طور بڑے کمزور ہیں۔