سوچیئے اگر آپ کو پتہ چلے کہ آج سے آپ ووٹ نہیں دے سکتے ہیں۔ اس سے ایک قدم اور آگے، اگر معلوم ہو کہ آپ بھارت کے شہری ہی نہیں رہے، تو کیسا لگے گا۔ جھٹکا لگے گا نا، جی ہاں جھٹکا ہی لگے گا۔
آپ کہیں گے کہ یہ کیسی باتیں ہو رہی ہیں؟ ہم کہیں گے ایسی ہی باتیں ہیں، جو گذشتہ کچھ دنوں سے زیادہ ہی ہو رہی ہیں۔ کیوں کہ مرکزی حکومت نے 'شہریت ترمیمی بل' یعنی سٹیزن شپ امیڈمینٹ بل کو لوک سبھا کی منظوری کے بعد اب 11 دسمبر سنہ 2019 کو راجیہ سبھا سے بھی منظور کرا لیا ہے، راجیہ سبھا میں پاس ہونے کے بعد یہ بل قانون بن جائے گا۔ اس لیے فی الحال جو کچھ بھی ہنگامہ ہے، وہ سب اسی بل کے سبب ہے۔
شہریت ترمیمی بل ہے کیا، اور اس بل سے اتنا ہنگامہ کیوں ہے؟
تو اس کا جواب ہے کہ در اصل بی جے پی حکومت شہریت کے 1955 ایکٹ میں ترمیم کر کے ایک ایسا قانون بنانا چاہتی ہے، جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے 6 مذاہب یعنی ہندو، سکھ، عیسائی، جین، پارسی اور بودھ مذاہب کے ماننے والے غیر قانونی مہاجرین کو بھارت میں 6 برس گذارنے کے بعد بھارت کی شہریت دی جا سکے، جبکہ مسلمانوں کو اس بل میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔
مذکورہ مذاہب کے لوگوں کو بھارت میں شہریت دینے سے بھارتی مسلمانوں کو کیا پریشانی ہو رہی ہے۔
تو اس کا جواب ہے کہ اس سے پریشانی ہو رہی ہے، اور خوب ہو رہی ہے۔ لیکن یہ پریشانی کیوں ہو رہی ہے، آئیے اسی کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
در اصل 'شہریت ترمیمی بل' یعنی کیب کو 'این آر سی' سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ لوگوں کو اندیشہ ہے کہ بل پاس ہونے کے بعد ملک بھر میں آسام کی طرح این آر سی کو نافذ کیا جائے گا۔ اور پہلے ہی سے شہریت پا چکے سبھی غیر مسلموں کو بھارتی شہری مان لیا جائے گا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو این آر سی کے بہانے ملک سے باہر کر دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اب بل کے پاس ہو جانے کے سبب این آر سی کی سبھی قواعد بے کار ہو جائیں گی، کیوں کہ این آر سی کا مقصد بھارت میں رہنے والے سبھی غیر قانونی شہریوں کو ملک سے باہر کرنا تھا، لیکن بل کے بعد سبھی کے بجائے محض مسلمانوں کو ہی باہر کیا جا سکے گا، اور غیر مسلموں کو جو خود کو بھارتی ثابت نہیں کر سکتے، تو ایسے افراد کو اسی قانون کی مدد سے شہریت دے دی جائے گی۔ اسی لیے اس بل کو مسلمانوں کے لیے انتہائی خوفناک قرار دیا جا رہا ہے۔
کیب سے مسلمانوں کو کیوں باہر رکھا گیا ہے؟
مسلمانوں کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ بی جی پی حکومت دانستہ طور پر یہ سب کچھ کر رہی ہے، تاکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو نیشنلٹی کا بہانہ بنا کر ملک بدر کر دیا جائے، یا کم از کم عارضی قید خانوں میں رکھ کر ان کی جائیداد کو ضبط کر لیا جائے، اور شہریت پانے والے غیر مسلموں کو مسلمانوں کی جائیداد پر بسایا جا سکے۔
ممکنہ عارضی قید خانے کا خاکہ اس کے علاوہ دانشوروں کا ماننا ہے کہ بی جی پی حکومت اس بل کے ذریعہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور مسلمانوں کے ذریعہ ہندوں کو خوش کر کے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
این آر سی کیا ہے، اور اس کی شروعات کب سے ہوئی ہے؟
در اصل این آر سی یعنی 'نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز' ایک ایسا رجسٹر ہے، جس میں ملک کے سبھی باشندوں کا نام اور ان کی پہچان درج ہونے کی بات کہی جا رہی ہے۔ اس کی شروعات آسام سے ہوئی تھی، یعنی جب انگریز بھارت میں آئے تو انہوں نے آسام کی پڑوسی ریاست بنگال کے کلکتہ شہر کو دارالحکومت قرار دیا، اس دوران انگریزوں کی جانب سے آسام کے پہاڑوں پر چائے کے باغانوں میں کام کرنے کے لیے بنگال کے ہندو مسلمان سبھی کو لایا گیا۔ اس طرح باہری لوگوں کے آنے کے سبب مقامی آسامی تہذیب اور زبان کو ایک طرح کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ تبھی باہری لوگوں کو آسام سے باہر بھیجنے کی بات کہی گئی۔ اس طرح پہلی بار آسام میں سنہ 1951 میں این آر سی کو نافذ کیا گیا۔ لیکن پریشانی اس بات کی تھی کہ اُس وقت آسام میں موجود سبھی لوگوں کو این آر سی میں شامل کر لیا گیا تھا۔
سنہ 1971 میں بنگلہ دیش، پاکستان سے علیحدہ ہوا، اس دوران کھلی سرحدوں کے سبب بڑی تعداد میں بنگلہ دیش سے آکر آسام میں لوگوں نے بسنا شروع کر دیا، اس کے بعد آسام کے مقامی لوگوں کو اس بات کی فکر ہوئی کہ اس طرح باہری لوگوں کے بسنے سے آسام کی تہذیب، زبان اور ان کے وسائل پر قبضہ ہو جائے گا۔ اسی خوف کے تحت آسام میں تشدد کا دور شروع ہو گیا، اور 6 برسوں تک تشدد کا سلسلہ جاری رہا، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ بآخر سنہ 1983 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 'آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ' یعنی ایلیگل مائگرینٹز ڈٹرمنیشن بائی ٹربیونل ایکٹ کے ذریعہ غیر قانونی افراد کو باہر کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔ بعد ازاں سنہ 1985 میں وزیر اعظم راجیو گاندھی نے آسام کے رہنماوں کے ساتھ مل کر ایک سمجھوتہ کیا جسے 'آسام اکارڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آسام اکارڈ کے تحت سنہ 1951 سے 1961 کے دوران آسام میں آنے والے لوگوں کو مکمل شہریت دی جائے گی، سنہ 1961 سے 1971 کے دوران آنے والوں کو محض رہنے کا حق حاصل ہو گا، جبکہ ان کو ووٹنگ کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ اور سنہ 1971 کے بعد آنے والے لوگوں کو ملک سے باہر کر دیا جائے گا۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا اور سنہ 2009 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 1951 میں جو کام شروع کیا گیا تھا اسے پورا کر کے ایک رجسٹر بنایا جائے جس میں آسام کے اصلی باشندوں کی پہچان کر کے بقیہ لوگوں کو ملک سے باہر کیا جائے، اسی کو این آر سی کہتے ہیں۔ سنہ 2015 سے آسام میں این آر سی کی کارروائی شروع کی گئی، اور رواں برس نتیجہ سامنے آ گیا، جس میں 3 کروڑ 29 لاکھ میں 19 لاکھ سے زائد لوگوں کا نام این آر سی کی لسٹ میں شامل نہیں ہے، اس میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو اور دیگر شامل ہیں۔ اس لیے لوگوں کا ماننا ہے کہ بی جی پی نے جس مقصد کے تحت این آر سی کو کرایا تھا، معاملہ اس کے الٹ ہو گیا، اسی لیے بی جے پی نے آسام میں دوبارہ این آر سی لانے کی بات کہی ہے، اور ساتھ ہی ملک بھر میں بھی این آر سی کی بات کہی گئی ہے۔
ملک بھر میں این آر سی لانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
اس سلسلے میں آسام کی معروف صحافی سنگیتا بروا اور دیگر دانشوروں کا ماننا ہے کہ آسام میں این آر سی تو ٹھیک ہے، لیکن ملک بھر میں نافذ کرنا بی جی پی حکومت کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ تین کروڑ 29 لاکھ والی ریاست کے لیے این آر سی لانے میں تقریبا 16 سو کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں، اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، اس طرح اگر پورے بھارت میں این آر سی کو نافذ کیا گیا، تو 60 ہزار کروڑ روپے سے زائد کا خرچ ہوگا، اور سوائے ملک میں نفرت پھیلنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔
نارتھ ایسٹ میں اس بل کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟
در اصل ان ریاستوں کو اندیشہ ہے کہ جب افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے غیر قانونی مہاجرین کو شہریت دے دی جائے گی، تو یہ لوگ ان کے علاقوں میں بھی آکر بسیں گے، اور پہلے سے ہی کم ہوتی ان کی نسل اور تہذیب کو ایک چیلنج کا سامنا ہو گا، اسی لیے ان علاقوں میں بل کے خلاف زبر دست مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے 'انر لائن پرمٹ' اور دیگر معاملات کے تحت ان کے حقوق کے تحفظ کی بات ضرور کہی ہے، تاہم انہیں حکومت کی باتوں پر بھروسہ نہیں ہو رہا ہے۔ خاص طور پر آسام کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بل کے سبب آسام میں موجود ہندو بنگالیوں کو شہریت مل جائے گی، اور یہ بات آسام کے لوگوں کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی اتحادی جماعتیں اور آسام کے رہنما بھی اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
کیا ملکی سطح پر این آر سی نافذ کرنے سے فائدہ ہو گا یا نقصان؟
اس کا جواب انتہائی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ دانشوران کا ماننا ہے کہ اگر ملک بھر میں موجودہ بل یعنی 'کیب' کے مطابق این آر سی کا نفاذ ہو گا، تو اس عمل سے خانہ جنگی کی نوبت آ سکتی ہے۔ اور ایسے غیر محفوظ ملک میں غیر ملکی کمپنیز سرمایہ کاری نہیں کر سکتی ہیں، جس کے سبب معاشی بد حالی اور بے روزگاری کا ریلا ہو گا، اور ملک میں اس قدر مشکلات پیدا ہو جائیں گی، کہ اتنے بڑے ملک کو سنبھالنا تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔ اور ملک کی بدحالی کا خمیازہ ہندو مسلمان سبھی کو اٹھانا پڑے گا۔ اس لیے ملک کی سلامتی اور بقا کا انحصار اسی میں ہے کہ شہریت ترمیمی بل کو یکسر مسترد کیا جائے۔
کیا سی اے بی کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟
جی ہاں ضرور کیا جا سکتا ہے، لیکن سنگیتا بروا کے مطابق بی جے پی حکومت نے بڑی چالاکی سے اس کا ایک راستہ بھی نکال لیا ہے۔ در اصل حکومت کو معلوم تھا کہ بل کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا، اور ایسی صورت میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی پر بل کو منسوخ کیا جا سکتا ہے، اسی لیے موجودہ بل میں اس بات کا ذکر ہی نہیں ہے کہ لوگوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر شہریت دی جائے گی، بلکہ سنہ 2015 میں سبھی ریاستوں کو جاری کیے گئے 'ایگزیکٹو نوٹیفکیشن' میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس لیے بل کو عدالت میں چیلنج کرنے سے کیا کچھ حاصل ہو گا اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا جلد بازی ہو گی۔
این آر سی نافذ ہونے پر کس طرح کے دستاویزات جمع کرانے ہوں گے؟
اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے اب تک کوئی گائڈ لائن جاری نہیں کی گئی ہے۔ تاہم اکثر وکلاء اور قانون کے جانکاروں کا ماننا ہے کہ اگر پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ کیا گیا تو لیگیسی ڈاٹا جمع کرنے سے متعلق آسام جیسی سختی نہیں ہو گی۔ ہاں البتہ دستاویزات کی ضرورت ہر حال میں ہو گی، اس لیے اپنے دستایزات میں موجود کسی طرح کی خامی کو درست کرانا ہو گا، اور یکم اپریل سنہ 2020 سے 30 ستمبر یعنی اگلے 6 ماہ تک مردم شماری کا عمل جاری رہے گا، اور اس دوران اپنے دستایزات بی ایل او کو دینے ہوں گے، اور انہیں دستاویزات کی بنیاد پر این آر سی کا عمل بھی مکمل کیا جا سکتا ہے۔
کل ملا کر کہا جا سکتا ہےکہ شہریت ترمیمی بل راجیہ سبھا سے پاس ہو گیا ہے۔ اور اب اگر عدالت میں کیے جانے والے چیلنجز کا سامنا کرنے میں کامیاب رہا، اور اس کے بعد این آر سی کا نفاذ کیا گیا، تو ملک کا مستقبل کیسا ہو گا، اسے سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ اس لیے ایک شہری ہونے کے ناطے ہمیں اپنے اور اپنے ملک کے تحفظ کی فکر ضرور کرنی ہو گی۔