مخدوم محی الدین (پیدائش 4 فروری 1908 ۔ وفات 25 اگست 1969) کو مزدورں کا مسیحا کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں کمزور طبقات اور مزدورں کے حقوق کی بات کی ہے۔ وہ حیدرآباد دکن کے انقلابی شاعر تھے۔ آپ محیر العقل شاعرانہ تخیلات و جولانی طبع کے مالک تھے۔
ویڈیو: معروف ادیب محمد امتیاز الدین سے خصوصی گفتگو مخدوم محی الدین نظریاتی اعتبار سے مارکسی سوشلسٹ خیالات کے علم بردار تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو 'راسخ العقیدہ سوشلسٹ' کہتے تھے۔ لیکن وہ بنیادی طور پر انسان دوست اور مزدورں کی آواز اٹھانے والے شاعر کے طور پر مشہور ہوئے۔
اسی نظریہ کے تحت انھوں نے اردو کی مشہور ترقی پسند تحریک کی حمایت کی اور کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر نظام حکومت کے خلاف مسلح جدودجہد میں حصہ لیا۔
مخدوم محی الدین نے اپنے شعری مجموعہ 'گل تر' کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ 'شعر میں ہم ماورا کی حدوں کو چھوتے ہیں مگر شعر سماج سے ماورا نہیں ہوتا'۔
تصاویر کے آئینے میں انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کی زندگی کی مختلف بہاریں وہ مزید لکھتے ہیں کہ ' شاعر اپنے دل میں چھپی ہوئی روشنی اور تاریکی کی آویزش کو روحانی کرب و اضطراب کی علامتوں کو اجاگر کرتا اور شعر میں ڈھالتا ہے'۔
معروف ادیب، ماہر اقبالیات اور طنز و مزاح نگار محمد امتیاز الدین کا کہنا ہے کہ 'اردو شاعری کی پوری تاریخ میں آزاد یا نثری نظم کو جن شعرا نے برتا اور ان کو عوامی مقبولیت ملی ان میں مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض کی شاعری کو سب سے زیادہ شہرت ملی'۔
تصاویر کے آئینے میں انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کی زندگی کی مختلف بہاریں محمد امتیاز الدین نے بتایا کہ مخدوم کا دین دار گھرانہ تھا، اسی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی تھی۔چونکہ اس دور میں اشتراکی تحریک زورں پر تھی۔ اس لیے مخدوم محی الدین نے اس تحریک کے اثرات کو قبول کیا اور اس کے پر زور حامی بنے'۔
راج بہادر گوڑ کے مطابق 'مخدوم چوٹی کے شاعر ہی نہیں، ٹریڈ یونین اور کمیونسٹ رہنما بھی تھے۔ مخدوم کا ہنر ہی یہ ہے کہ وہ قلم کو تلوار میں اور تلوار کو قلم میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ عوام کے مصروف قدموں سے قدم ملاکر چلتے ہیں۔ ان کی لڑائیوں میں شریک رہتے ہیں اور پھر ان ہی تجربوں کو عوام کے ارمانوں کو شعر کے قالب میں ڈھال کر پیش کردیتے ہیں'۔
تصاویر کے آئینے میں انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کی زندگی کی مختلف بہاریں مخدوم محی الدین کا پورا نام ابو سعید محی الدین اور مخدوم تخلص تھا۔ وہ 4 فروری 1908 کو آندول ضلع میدک میں پیدا ہوئے۔
مخدوم نے 1929 میں میدک کے سنگاریڈی ہائی اسکول سے میٹرک، 1934 میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔اے اور یہیں سے 1937 میں اردو میں ایم اے کیا۔
تصاویر کے آئینے میں انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کی زندگی کی مختلف بہاریں مخدوم محی الدین کی ادبی زندگی کا آغاز ان کی نظم ' پیلا دوشالہ' سے ہوا۔ یہ ایک مزاحیہ نظم ہے۔ مخدوم کے کلام کے تین مجموعے ' سرخ سویرا' دوسرا 'گل تر' تیسرا اور آخری مجموعہ ' بساط رقص' ہے۔
مخدوم کے کلام کو اکثر ہندی اور اردو فلموں میں فلمایا بھی گیا ہے۔
تصاویر کے آئینے میں انقلابی شاعر مخدوم محی الدین کی زندگی کی مختلف بہاریں مخدومؔ محی الدین کے مشہور نظم 'چارہ گر' کو معروف گلوکار محمد رفیع نے خوبصورت انداز میں گایا تھا۔
چارہ گر
اک چنبیلی کے منڈوے تلے
مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بدن
پیار کی آگ میں جل گئے
پیار حرف وفا پیار ان کا خدا
پیار ان کی چتا
دو بدن
اوس میں بھیگتے چاندنی میں نہاتے ہوئے
جیسے دو تازہ رو تازہ دم پھول پچھلے پہر
ٹھنڈی ٹھنڈی سبک رو چمن کی ہوا
صرف ماتم ہوئی
کالی کالی لٹوں سے لپٹ گرم رخسار پر
ایک پل کے لیے رک گئی
ہم نے دیکھا انہیں
دن میں اور رات میں
نور و ظلمات میں
مسجدوں کے مناروں نے دیکھا انہیں
مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انہیں
مے کدوں کی دراڑوں نے دیکھا انہیں
از ازل تا ابد
یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے
کچھ علاج و مداوائے الفت بھی ہے
اک چنبیلی کے منڈوے تلے
مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بدن
پیش ہے کچھ دیگر نظمیں:
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر
بانسری کی سریلی سہانی صدا
یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر
یاد کے چاند دل میں اترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی رات بھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزادیٔ وطن
کہو ہندوستاں کی جے
کہو ہندوستاں کی جے
قسم ہے خون سے سینچے ہوئے رنگیں گلستاں کی
قسم ہے خون دہقاں کی قسم خون شہیداں کی
یہ ممکن ہے کہ دنیا کے سمندر خشک ہو جائیں
یہ ممکن ہے کہ دریا بہتے بہتے تھک کے سو جائیں
جلانا چھوڑ دیں دوزخ کے انگارے یہ ممکن ہے
روانی ترک کر دیں برق کے دھارے یہ ممکن ہے
زمین پاک اب ناپاکیوں کو ڈھو نہیں سکتی
وطن کی شمع آزادی کبھی گل ہو نہیں سکتی
کہو ہندوستاں کی جے
کہو ہندوستاں کی جے
وہ ہندی نوجواں یعنی علمبردار آزادی
وطن کی پاسباں وہ تیغ جوہر دار آزادی
وہ پاکیزہ شرارہ بجلیوں نے جس کو دھویا ہے
وہ انگارہ کہ جس میں زیست نے خود کو سمویا ہے
وہ شمع زندگانی آندھیوں نے جس کو پالا ہے
اک ایسی ناؤ طوفانوں نے خود جس کو سنبھالا ہے
وہ ٹھوکر جس سے گیتی لرزہ بر اندام رہتی ہے
وہ دھارا جس کے سینے پر عمل کی ناؤ بہتی ہے
چھپی خاموش آہیں شور محشر بن کے نکلی ہیں
دبی چنگاریاں خورشید خاور بن کے نکلی ہیں
بدل دی نوجوان ہند نے تقدیر زنداں کی
مجاہد کی نظر سے کٹ گئی زنجیر زنداں کی
کہو ہندوستاں کی جے
کہو ہندوستاں کی جے
کہو ہندوستاں کی جے......