مظاہرے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں خواتین بڑی تعداد میں شامل ہو رہی ہیں۔
سکھ، بدھ، عیسائی اور ہندو مذہب کے لوگوں کا بس یہی کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون نہ صرف آئین کے خلاف ہے بلکہ اس سے غریبوں کو نقصان پہنچے گا۔
کانپور کا چمن باغ بنا دہلی کا شاہین باغ شہریت ترمیمی ترمیمی اب نافذالعمل ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ بیس دسمبر کو کانپور میں ہوئے مظاہروں کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں جس میں تین مظاہرین کی ہلاکت ہو گئی اور ایک درجن سے زائد نوجوان زخمی ہوئے، اس کے بعد بھی کانپور کے عوام کے عزم واستقلال اور ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ ان مظاہرین کے اندر پولیس کی زیادتی بربریت کے خلاف غم وغصہ بھی ہے لوگ مخلتف طریقہ کار سے اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ کہیں ہیومن چین تو کہیں ہاتھوں میں بینر لیے تو کچھ نظم اور اشعار کے ذریعے حکومت تک اپنے پیغام پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن جب کہ حکومت نے یہ صاف کر دیا ہے کہ وہ اس قانون میں نہ تو ترمیم کرے گی اور نہ ہی اسے واپس لیا جائے گا،
کانپور کے چمن گنج علاقے میں واقع محمد علی پارک میں دھرنے پر بیٹھے لوگ اب پولیس کے لئے درد سر بن گئے ہیں۔ مسلسل جاری اس مظاہرے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں اور آج اس کا ساتواں دن ہے
اس مظاہرے میں سکھ، عیسائی، ہندو مذہب کے لوگ شریک ہو کر اپنی گنگا جمنی تہذیب کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ خواتین، نو عمر لڑکے لڑکیاں بچے، مائیں اپنی گود میں بچوں کو لے کر اس احتجاج میں شامل ہوتی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ان مظاہرین کو محمد علی پارک سے کیسے ہٹایا جائے اس کے لیے ضلع انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے دباؤ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن مظاہرین اپنے مطالبات کو لے کر ڈٹے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'وہ مظاہرہ کو اس وقت تک نہیں ختم کریں گے جب تک کہ قانون کو واپس نہیں لیا جائے گا۔'