علامہ اقبال
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفہ پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
نظیر اکبر آبادی
ہیں کہتے نانک شاہ جنہیں وہ پورے ہیں آگاہ گرو
وہ کامل رہبر جگ میں ہیں یوں روشن جیسے ناہ گرو
مقصود مراد امید سبھی بر لاتے ہیں دل خواہ گرو
نت لطف و کرم سے کرتے ہیں ہم لوگوں کا نرباہ گرو
اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو
سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو
ہر آن دلوں وچ یاں اپنے جو دھیان گرو کا دھرتے ہیں
اور سیوک ہو کر ان کے ہی ہر صورت بیچ کہاتے ہیں
گرد اپنی لطف و عنایت سے سکھ چین انہیں دکھلاتے ہیں
خوش رکھتے ہیں ہر حال انہیں سب من کا کاج بناتے ہیں
اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو
سب سیس نوا ارداس کرو اور ہر دم بولو واہ گرو
دن رات جنہوں نے یاں دل وچ ہے یاد گرو سے کام لیا
سب من کے مقصد بھر پائے خوش وقتی کا ہنگام لیا
دکھ درد میں اپنے دھیان لگا جس وقت گرو کا نام لیا
پل بیچ گرو نے آن انہیں خوش حال کیا اور تھام لیا
اس بخشش کے اس عظمت کے ہیں بابا نانک شاہ گرو