اس بل کو اب راجیہ سبھا میں منظور ہونا باقی ہے اور اس کے بعد صدر جمہوریہ کے پاس دستخط کے لئے بھیجا جائے گا پھر یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔
'تین طلاق بل خواتین کے حقوق کے خلاف'
گزشتہ جمعرات کو لوک سبھا سے طلاق ثلاثہ بل 2019 کو منظوری ملنے کے بعد جہاں حکومت مسلم خواتین کوانصاف دلانے کا دعویٰ کررہی ہے تو وہیں مسلم نوجوانوں نے حکومت کی نیت پرشک ظاہر کیا۔
اس ضمن میں ریاست بہار کے دربھنگہ کے کچھ مسلم نوجوان، دانشور اور سیاسی کارکنان سے ای ٹی وی بھارت کی بات ہوئی ، جس میں سب سے پہلے انصاف منچ کے صدر اور بھاکپہ مالے کے سینئر رہنما نیاز احمد، محمد بقااللہ سیاسی کارکن نثار مریاوی جےڈی یو پارٹی کے دہلی ریاستی اقلیتی سیل کے صدر حسین احمد، آرجے ڈی کے پنچایت صدر محمد نعمت اللہ اور اس کے بعد آخر میں ایک مسلم بے روزگار نوجوان محمد شعیب شامل ہیں۔
ان لوگوں کی اگر سوچ کی بات کریں تو سبھوں نے اس بل کی مخالفت کی اور کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ حکومت مسلمانوں کی خاص طور پر مسلم خواتین کی بے روزگاری اور دیگر مسائل پر توجہ دیتی،انھوں نے کہا کہ اس بل کے آنے سے مسلم طبقہ میں بے روزگاری بڑھے گی اور اس قانون کا غلط استعمال بھی ہوگا۔
وہیں حکومت کو کسی بھی مذہب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہےاگر توجہ دینی ہے تو اس قوم کی ترقی کیسے ہو اس پر توجہ دینی چاہیے وہیں انھوں نے کہا کہ اگر قانون بنانا ہے تو ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانا چاہیے، جہاں آئے دن سر عام لوگوں کو مار مار کر ہلاک کیا جارہا ہے۔