اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے'

اردو زبان کو جس شعرا کرام نے اپنی تخلیقات سے فیض پہنچایا ہے، ان میں فیض احمد فیض کا نام اہم ہے۔ جدید اور انقلابی اردو شاعری میں فیض احمد فیض کے کلام کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔

'چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے'

By

Published : Nov 20, 2019, 1:44 PM IST

اردو زبان کے مشہور شاعر فیض احمد فیض کی آج برسی ہے۔ فیض 13 فروری 1911 کو پاکستان کے سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ 20 نومبر 1984 کو لاہور میں انتقال ہوا۔

میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات سیالکوٹ میں پاس کیا۔ لاہور سے انگریزی اور عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

اردو شاعری کی روایت میں فیض کی شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ میر، غالب، اور اقبال کے بعد جس شاعر کا نام سب سے نمایاں ہے وہ فیض احمد فیض ہیں۔

فیض احمد فیض

فیض کو شعروشاعری کا شغف بچپن ہی سے تھا، انھوں نے شاعری میں کسی سے اصلاح نہیں لی۔

فیض کی زندگی کا کچھ حصہ جیل میں گزرا ہے۔ پہلی مرتبہ راول پنڈی سازش کیس میں 1951 میں پاکستان سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے۔ وہ چار برس تک سرگودھا، منٹگمری، لاہور اور کراچی کی مختلف جیلوں میں قید رہے۔ سنہ 1955 میں جیل سے رہا ہوئے۔

فیض کے یہاں محبوب کا وہ روایتی تصور نہیں ملتا جو بیشتر شعرا کے یہاں ملتا ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے کہ فیض کے نزدیک محبوب سے زیادہ نچلے طبقے کے مظلوم مزدور اور غریب افراد زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں۔ ان کی مشہور نظم 'مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ' میں اس کا جابجا ذکر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

اس نظم میں مزید مذکورہ باتوں کا مفصل ذکر ہے۔

علی سردار جعفری کے قول کے مطابق فیض ایک نئے مدرسۂ شاعری کے بانی ہیں، ان کے یہاں 'جدید مغربیت اور قدیم مشرقیت کا حسین امتزاج ہے جس نے اردو شاعری کو دو آتشہ بنا دیا'۔

عمومی طور پر فیض کو انقلابی شاعر کی حیثیت سے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی بیشتر غزلیں اور نظمیں بہت مشہور ہوئیں جن کے چند اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
۔۔۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
۔۔۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
۔۔۔
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
۔۔۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے

فیض ترقی پسندوں کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہایت خلوص اور فنکاری کے ساتھ اپنے نظریات اور رجحانات کو شعری پیکر میں بخوبی ادا کیا۔

انہوں نے مزدور، محنت کش، کسان اور نچلے طبقات کے افراد کے دکھ درد کی سچی ترجمانی کی۔ فیض کا فنکارانہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے مروجہ شعری ڈھانچے سے فکرو خیال کی نئی عمارت کھڑی کی۔
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں ، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

فیض کے بارے میں بہتوں نے لکھا، اس ضمن میں معروف نقاد پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ 'فیض کی شاعری میں انگریزی ادب کے ایک خوشگوار انسان کے ذہن اور ایشیائی تہذیب کے قابل قدر عناصر کی ایک قوس قزح جلوہ گر ہے'۔

مجروح سلطان پوری کا کہنا ہے کہ 'فیض احمد فیض ترقی پسندوں کے میر تقی میر ہیں'۔

20 نومبر 1984 کو لاہور میں فیض اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کی تصانیف میں 'نقش فریادی' ، 'دست صبا' ، 'زنداں نامہ' ، 'دست تہہ سنگ' ، 'شام شہریاراں' ، 'متاع لوح و قلم' ، 'سروادیٔ سینا' ، 'مرے دل، مرے مسافر'۔ شامل ہیں۔

ان کا کلیات 'نسخہ ہائے وفا' کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details