سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس ڈی وائی چندرچور ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی آئینی بینچ کے سامنے دستاویزات کا حوالہ پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بابری مسجد متنازع جگہ پر موجود تھی۔
ظفر یاب جیلانی نے پی ڈبلیو ڈی کی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1934 کے فرقہ وارانہ فسادات میں مبینہ طور پر مسجد کے ایک حصے کو نقصان پہنچا گیا تھا اور پی ڈبلیو ڈی نے اس کی مرمت کروائی تھی۔