اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

اجتماعی جرم! صفائی ملازمین کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں

سماج کے چند طبقات کے تئیں صدیوں سے کئے جانے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے یہ طبقات یکساں تعلیمی اور معاشی مواقعوں سے محروم رہے ہیں۔

By

Published : Dec 23, 2020, 10:55 PM IST

اجتماعی جرم! صفائی ملازمین کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں
اجتماعی جرم! صفائی ملازمین کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں

ایسا کیوں ہے کہ، بحثیت انسان عزت و تکریم کے ساتھ جینے کا حق محض چند ایک کو ہی مل رہا ہے؟ اس ملک میں ابھی بھی لاکھوں لوگ دوسرے انسانوں کی گندگی کو صاف کرتے ہوئے بدترین حالت میں کیوں جی رہے ہیں۔ جب ہم ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں تو عمومی طور پر قانون اور حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو سرسری طور پر باہر نظر آنے والے حالات ہی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اس مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔

اجتماعی جرم! صفائی ملازمین کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں

صفائی! اس کام کے تحت انسانوں کو انسانی فضلہ ٹھکانے لگانے کا عمل ابھی بھی اس ملک میں جاری ہے۔ یہ بات حکومت کی نا اہلی کا ایک بین ثبوت ہے، جو اس معاملے میں متعقلہ قواتین کو لاگو کرنے میں ناکام ثابت رہی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ غیر اخلاقی عمل سالہا سال سے جاری ہے۔

  • انسانی حقوق کی خلاف ورزی
اجتماعی جرم! صفائی ملازمین کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں

آئین شہریوں کی قدر و منزلت کی ضمانت دیتا ہے۔ صحت عامہ کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے سال 1993 میں ایک قانون بنایا جس کے تحت انسانوں کے ہاتھوں فضلہ کو صاف کرنے اور خشک پاخانوں کی تعمیر پر پابندی لگادی گئی۔ یہ قانون کبھی پوری طرح نافذ ہی نہیں ہوا کیونکہ ریاستیں اس ضمن میں مکمل طور پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔

بیس سال بعد 2013 میں ایک اور قانون پاس کیا گیا، جس کے تحت انسانوں کے ہاتھوں انسانی فضلہ صاف کرنے اور صفائی کرمچاریوں کی باز آباد کاری کو قانونی ضمانت فراہم کی گئی۔ اس قانون کے تحت انسانوں کے ذریعے انسانی فضلہ صاف کرانے پر پانچ سال کی جیل اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ آج بھی لاکھوں لوگ اس ’پیشے‘ سے جڑے ہیں۔ ایسی جوئی مثال نہیں کہ سال 2013 میں پاس کئے گئے اس قانون کے تحت اب تک کسی کو اس پر جیل یا جرمانے کی سزا بگھتنی پڑی ہو۔ آج بھی ملک میں سات لاکھ ستر ہزار صفائی کرمچاری ہیں۔ ان میں سے ہزاروں لوگ اپنے ہاتھوں سے ٹوکریوں میں لاد کر فضلہ ٹھکانے لگانے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہزاروں ملازمین بھارتیہ ریلوے میں اس طرح کے کام پر مامور ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ حکومتی اعداد و شمار کیا کہتے ہیں، لیکن بعض جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں سالانہ سترہ سو ملازمین گندی نالیوں کو صاف کرنے اور عفونتی حوضوں کی صفائی کرنے کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو کر، یا زہر آلودہ گیس کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ چونکہ ماضی میں پاس کئے گئے دو قوانین کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اس لئے حالیہ پارلیمانی سیشن میں فضلہ صاف کرنے والوں کی تقرری پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس قانون کے تحت ماضی کے مقابلے میں سزا مزید سخت کردی گئی۔

جب تک دلت طبقے کے تئیں نسل در نسل چلے آرہے رویہ جاری رہے گا اور اُنہیں اس کام پر جبراً لگانے کا رویہ نہیں بدل جاتا ہے، تب تک اس طرح کے قوانین بے سود ہی ثابت ہوتے رہیں گے۔ جب تک صفائی ملازمین کی عمومی عمر پچاس سال سے زیادہ نہیں ہوجاتی اور انہیں عفونت بھری ٹینکوں کی صفائی کی وجہ سے دمہ، ہپیٹٹس کا شکار ہوتے رہیں گے اور وہ بدنصیبی کی زندگی بسر کرتے رہیں گے، تب تک یہی کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی جمہوریت اچھی حکمرانی کی طرف نہیں بڑھ رہی ہے۔

  • عوامی جانکاری عام کرنے میں حل مضمر

اگر ہمارے سماج میں آج بھی لاکھوں خشک ٹوائلٹ موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں صاف کرنے کےلئے انسانی ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صفائی ملازمین نے خشک لیٹریز کو منہدم کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے کہ سیول سوسائٹی ابھی تک اس طرح کے توائلٹ کا استعمال کررہی ہے اور ان کی صفائی کے لئے کئی نسلوں سے بعض لوگوں کو لگائے ہوئے ہیں۔

اس غیر انسانی رویہ کے نتیجے میں بعض لوگوں کو بے انتہا جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور وہ اچھوت بنے ہوئے ہیں، جبکہ اُن سے یہ کام کروانے والے 'معزز' کہلاتے ہیں۔ اس طرح کی تنگ نظری کو ختم کرنا اور سماج میں جانکاری عام کرنا قواتین بنانے سے زیادہ ضروری ہے۔ مقامی اداروں کو عوامی جانکاری عام کرنے کےلئے تیار کرنا ہوگا اور اس کام کو ایک تحریک کے تحت شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:کورونا کی نئی شکل کے زیادہ خطرناک ہونے کے ثبوت نہیں: ڈبلیو ایچ او

اس کے علاوہ حکومت کو سیوریج نظام کو جدید طرز پر استوار کرنے اور انسانی فضلہ کو ڈھونے کےلئے مشنری نصب کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ جب تک صفائی اور اچھی صحت کے درمیان تعلق کے حوالے سے سماج میں جانکاری عام نہیں کی جاتی اور اس ضمن میں عملی اقدامات نہیں کئے جاتے، صفائی کرمچاریوں اور اُن کی خدمات کے تئیں اظہار ہمدردی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details