ہنر کسی کا محتاج نہیں ہوتا آج کے اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کپڑے پر ڈیزائن تراشتی یہ انگلیاں اترپردیش میں مرادآباد کے رہنے والے ایک ایسے ہنر مند کاریگر کی ہیں جو بول سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کچھ سنائی دیتا ہے۔
سننے اور بولنے سے معذور اس نوجوان کے حوصلے اور جذبہ کو سلام! جس کی انگلیاں ساڑی پر زر دوزی کا ہنر بکھیرتی ہیں۔
تاج الدین نے یہ ہنر اپنی بہن ریشماں سے 6 برس کی عمر سے ہی سیکھنا شروع کردیا تھا۔ ان کی بہن ریشماں نے بتایا بچپن میں ان کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی وہ اس کام سے وابستہ ہو کر اپنی زندگی کا گذر بسر کرتی ہیں۔
ریشماں کے دو بھائی تاج الدین اور محمد فہیم نے کئی بار حکومت سے فریاد کی کہ کسی منصوبہ کے تحت ان کی مدد کی جائے لیکن تاج الدین کو کسی بھی منصوبہ کا فائدہ نہیں مل سکا۔
بچپن میں ماں باپ کے سائے سے محروم ہو جانے کی وجہ سے تینوں بھائی بہن نے زر دوزی کا کام شروع کیا۔ تاج الدین بولنے اور سننے سے معذور ہے انکی بات بہن ریشماں ہی سنتی اور سمجھتی ہے۔
ایک معمولی کپڑے کو بیش قیمتی بنانے میں تاج الدین کے ہنر کا ہی کمال ہے جس ہنر مندی کا کپڑے پر ہنر بکھیرتے ہیں بڑے کاروباری اور شوروم مالک اسے بیچ کر بڑی رقم کماتے ہیں، جبکہ ہنر مند تاج الدین کو اسکی پوری محنت کا پیسہ بھی نہیں مل پاتا۔
ایک لیڈیز سوٹ پر ڈیزائن کرنے کی قیمت 150 سے 200 روپے مزدوری مل جاتی ہے ارو کو تیار کرنے پر 200 سے 250 روپے مل جاتے ہیں معذور تاج الدین صرف مزدوری پر ہی کام کر پاتے ہیں انکے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ اپنا شوروم یا بڑی دوکان کر سکیں۔
تاج الدین کی بہن مال کو تیار کر بڑے شوروم مالکوں کو دیکر آتی ہیں جن شوروم مالکوں نے مزدوری پر یہ کام ان کو دیا ہے ایک سوٹ کو تیار کرنے میں تقریبًا 12 گھنٹے لگتے ہیں اور ایک ساڑی کو تیار کرنے میں دو دن بھی لگ جاتے ہیں۔
ریشماں کی باتوں سے اس بات اکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کی طرف سے چلائے جارہے سبھی منصوبے کھوکھلے ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔