شاہین باغ میں خاتون مظاہرین نے اس موقع پر مختلف اسٹالز لگائے جس میں کھانے کی چیزوں سمیت دوپٹے، اسکارف، رومال اور دیگر کپڑے تھے۔ رومال پر 'میں شاہین باغ ہوں' لکھا تھا۔
اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین موجود تھیں۔ لگائے گئے اسٹالز پر اشیاء کی فروخت سے جو آمدنی ہوگی اس سے دہلی کے فسادزدگان کی مدد کی جائے گی۔ خواتین سمیت مردوں اور بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پچاس روپے کی چیزوں کو دو سو روپے میں خریدا تاکہ زیادہ زیادہ پیسے فسادزدگان کے لئے اکٹھے ہوسکیں۔
اس سے قبل شاہین باغ خاتون مظاہرین دہلی کے فسادزدگان کے لیے یہاں سے کئی ٹرک اشیاء خوردنی بھیج چکی ہیں۔
اسٹال میں بریانی، دہی بڑے، حلیم سمیت کھانے پینے کی دیگر چیزیں تھیں اور کپڑے کے لیے بہت سارے اسٹالز لگے تھے۔ جس میں ترنگا، رومال، اسکارف سمیت دیگر چیزیں تھیں۔
شاہین باغ خواتین کا جوش و خروش کے دیکھنے کے لائق تھا۔کیا بچے، کیا بوڑھے، کیا بچیاں، کیا لڑکیاں سب میں عالمی یوم خواتین کے تئیں جوش و خروش تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ انہیں یہ افسوس بھی تھا احتجاج کرتے ہوئے اتنے دن ہوگئے لیکن خواتین کا حال جاننے کے لیے حکمراں طبقہ کا کوئی نمائندہ نہیں آیا۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ مسلمانوں یا مسلم خواتین کا احتجاج ہے جب کہ شروع سے ہی شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کی شمولیت رہی ہے اور پورے ملک سے تمام مذاہب کے لوگ اس مظاہرے کے ساتھ یکجہتی اور اس کی حمایت کرنے کے لیے یہاں آتے رہے ہیں۔
خاتون مظاہرین کو کہیں نہ کہیں یہ احساس ہے کہ شاید حکومت اس لیے ہمیں نظر انداز کر رہی ہے کیوں کہ ہم مسلمان ہیں۔ جو لوگ اس مظاہرہ کو مسلمانوں کا یا مسلم خواتین کا سمجھ رہے ہیں انہیں آسام کی صورت حال کاجائزہ لے لینا چاہئے۔کیوں کہ این آر سی کی حتمی فہرست سے جو 19لاکھ لوگ باہر رہ گئے ہیں ان میں سے 70 فیصد خواتین ہیں۔